مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَٰكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا

محمدﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے والد نہیں ہیں بلکہ خدا کے پیغمبر اور نبیوں (کی نبوت) کی مہر (یعنی اس کو ختم کردینے والے) ہیں اور خدا ہر چیز سے واقف ہے

Wednesday, December 28, 2011

sawal ghandam jawab chana

لوگوں کو اتنا کند ذہن جاننا ذہانت نہیں!

 یوسف کذاب کے ساتھ ’صحابیت‘ کا رشتہ؟

سوال گندم، جواب چنا!

  

انسانوں کے باہمی معاملہ و سلوک کے حوالہ سے اسلام میں جس چیز کا بار بار حکم ہوتا ہے اس کا نام ہے ”خدا خوفی“۔ کسی کے ساتھ زیادتی در اصل اپنے ساتھ زیادتی ہے، کیونکہ ہر چیز کا جواب آدمی کو قیامت کے روز دینا ہو گا۔ دنیا کے معاملات میں کسی پر زیادتی کر دینا بھی ظلم ہے مگر دین کے معاملہ میں کسی پر زیادتی کر دینا تو اور بھی بڑا ظلم ہے۔ بدترین سے بدترین دشمن ہو تو بھی اس پر بھی بہتان باندھ دینے کی اجازت بہر حال نہیں۔

زبان اور ’قلم‘ کی زیادتی بسا اوقات ہاتھ کی زیادتی سے سنگین تر ہوتی ہے۔ تو پھر اِس مسئلہ کی بابت، جو پچھلے دنوں بے حد زبان زدِ عام رہا اور کئی اصحاب نے ہم سے بھی اِس معاملہ میں رائے جاننا چاہی، کیا سمجھا جائے....؟ کیا ایک بے گناہ کے ساتھ زیادتی تو نہیں ہو رہی؟

بھئی اگر ایک صاحب بار بار جھوٹے نبی پر لعنت بھیج رہے ہیں، تو اُن پر اعتبار کرنے میں آخر مانع کیا ہے؟

”جھوٹے نبی“ پر بھیجتے ہیں نا! وہ اگر اُس کو سچا مانتے ہوں تو....؟

تو نبی تو پھر بھی نہیں مانتے....؟

’نیا نبی‘؟.... یا __ نعوذ باللہ __ ”محمد ﷺ کا فی زمانہ مظہر“....؟ یوسف کذاب کا تو اپنا دعویٰ ’نیا نبی‘ ہونے کا نہ تھا!

ہاں اِس بارے میں تو یہ صاحب کچھ ’وضاحت‘ نہیں کرتے۔ لوگوں کا سوال بار بار اُس دعویٰ کی بابت ہے جو یوسف کذاب سے منسوب ہے اور وہ یہ کہ آج کے دور میں وہ (معاذ اللہ) محمد ﷺ کا مظہر ہے۔ جبکہ یہ صاحب بار بار ’اُس‘ سوال کا جواب دیتے ہیں جو اِن سے پوچھا ہی نہیں گیا!

کیا یہ ’ذہین‘ ہونے کا ایک کھلا ثبوت نہیں؟!!!

یعنی اصل جواب تو اُس مسئلہ کا چاہیے تھا جس پر عدالت میں بے شمار حلفیہ شہادتیں سامنے آئیں (اور جوکہ آج بھی ریکارڈ پر ہیں) کہ یوسف کذاب نے لوگوں کو محمد ﷺ کے دیدار کی تاریخ اور وقت دیا اور بالآخر ”اپنا“ دیدار کرایا، اور کسی ’بے یقین‘ نے متجسسانہ سوال کیا تو اس پر کہا کہ ’ہم ہی تو محمد‘ ہیں۔ (ملاحظہ ہوں عدالت میں پیش ہونے والی وہ گواہیاں جو یوسف کذاب کے قریب رہنے والے لوگوں نے حلفیہ بیان کیں، اور جن کا ریکارڈ آج بھی دستیاب ہیں) کیا یوسف کذاب کے اِس دعوائے ’مظہر محمد ہونے‘ کی بابت بھی اِن صاحب کی طرف سے کوئی وضاحت آئی؟ کوئی ’لعنت‘ اِس حوالے سے بھی ریکارڈ پر ہو؟

نہیں، وہ تو نہایت ”واضح“ کر کے یہی کہے جاتے ہیں کہ وہ ہر جھوٹے نبی پر اور ہر اُس شخص پر جو محمد ﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کرے، لعنت بھیجتے ہیں!

اور جو محمد ﷺ ہونے ہی کا دعویٰ کرے....؟؟؟

ہاں، اس بارے میں تو وہ کچھ نہیں کہتے!!!!

یعنی سوال کچھ اور جواب کچھ!

لوگ اور کچھ نہیں کریں گے، ’ذہانت‘ کی داد تو دیں گے!

بخدا ہم بار بار حیران ہوئے۔ لوگوں نے سوال کو اچھا خاصا ”واضح“ کرنے کی کوشش کی۔ ہزارہا انداز میں پوچھنے کے جتن کر ڈالے۔ ہر بار ہم نے سوچا، اب تو سوال اتنا ”واضح“ ہے، آخر کچھ تو جواب آئے گا۔ کبھی خیال آیا، صاحب ”اونچا“ سنتے ہیں، مگر یہ دیکھ کر ڈھارس بندھتی کہ کچھ لوگ تو اب گلا پھاڑ کر ہی پوچھنے لگے ہیں: ’صاحب! یوسف کذاب کے ”محمد ﷺ ہونے کے دعویٰ“ کی بابت آپ کیا فرماتے ہیں، اور اُس کا صحابی یا جانشین ہونے کا کیا ماجرا ہے؟‘ ہر بار امید ہوتی، اب تو ”سوال“ ضرور ہی سمجھ آ گیا ہو گا۔ مگر ادھر شانِ استقامت دیکھتے تو ہر بار حیران رہ جاتے: ’جی ہاں، میں نے بہت واضح انداز میں بیان کر دیا ہے کہ میں ہر جھوٹے نبی پر اور محمد ﷺ کے بعد دعوائے نبوت کرنے والے ہر شخص پر لعنت بھیجتا ہوں۔ یہ وضاحت میں اتنی بار کر چکا ہوں، معلوم نہیں یہ لوگ کیا پوچھنا چاہتے ہیں؟‘

خدایا! کیا واقعی معلوم نہیں، یہ لوگ ’کیا‘ پوچھنا چاہتے ہیں؟!!

زچ ہو کر آخر تو بولنے اور ’پوچھنے‘ سے چپ ہوں گے ہی!

اور پھر اصل سوال تو ابھی باقی ہے۔ پوچھنے والوں کو اِس بات سے تو کچھ بہت زیادہ غرض نہیں کہ یہ صاحب یوسف کذاب کی بابت اپنا کیا ’عقیدہ‘ بیان کرتے ہیں۔ اِس ٹولے کے زیر استعمال رہنے والی سب تعبیرات اور اصطلاحات دیکھی جائیں تو ”گمراہ فرقوں“ کی تاریخ سے واقف کوئی ادنیٰ درجے کا طالب علم بھی یہ جاننے میں دیر نہ لگائے گا کہ یوسف کذاب اور اُس کے ٹولے کا کیس ”باطنیت“ کا ایک نہایت typical کیس ہے، جو کہ ہر کسی پر اتنا ہی ’راز‘ اِفشا کرتی ہے جتنا ’ہضم‘ کر لینا کسی کے بس میں ہو (پھر بھی کسی کسی وقت ’غلطی‘ ہو جاتی ہے اور ایک ’راز کے ناقابل شخص‘ اُس راز کو بیچ چوراہے کے لا دھرتا ہے اور یوں ’کھیل‘ خراب ہو جاتا ہے! جی ہاں ’کھیل‘.. خود ان لوگوں کے اپنے الفاظ میں، جیسا کہ آگے چل کر آپ دیکھیں گے)۔ 

بہت کم لوگوں کی توجہ اِس جانب جا سکی ہو گی کہ یہ باطنیت کا ایک نہایت ’مانوس‘ known قسم کا کیس ہے، جو کہ اِس سے پہلے قرامطہ، نصیریہ اور اسماعیلیہ وغیرہ ایسے ناموں سے ہو گزرے ہیں۔ ”باطنیت“ تو ”باطنیت“ ہے، جس کا مطلب ہی یہ ہے کہ ”ظاہر“ کچھ ہے تو ”باطن“ کچھ۔ ”ظاہر“ کے پردے میں ”باطن“۔ یعنی سامنے کچھ تو پس پردہ کچھ اور، جو کچھ ’دیدہ وروں‘ سے بہرحال نہیں چھپ سکتا، اور خدا اُن کو معاذ اللہ ہر ’روپ‘ میں نظر آ جاتا ہے! ایک نہایت دلچسپ کھیل جسے باطنیت کے داعی ’آنکھ مچولی‘ کے سے انداز میں جاہلوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ معاذ اللہ، گویا ’صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں‘۔ معاذ اللہ ثم معاذ اللہ، رب العالمین کے ’روپ‘! زنادقہ کا وہی پرانا موضوع، خدا کو اِسی دنیا میں دیکھنے اور دکھانے کے کاروبار اور دھندے۔ رب العالمین کو یہیں پر دیکھنے اور دکھانے اور ’پہنچنے اور پہنچانے‘ کے وہ سب تاریخی ہتھکنڈے۔ باطنیت کا یہی معروف زندقہ ہمیں اِس ٹولے کے ہاں بھی نظر آتا ہے۔

ہم نے اِس ٹولے کو کسی خصوصی توجہ کے ساتھ موضوعِ مطالعہ نہیں بنایا، پھر بھی چونکہ ”باطنیت“ اور ”گمراہ فرقے“ بطورِ طالبعلم ہمارا ایک موضوع ہے، یہاں پائی جانے والی ایک تصنیف ”فتنۂ یوسف کذاب“ مؤلفہ ارشد قریشی کی بعض عبارتیں ہماری توجہ لئے بغیر نہ رہ سکیں، جن میں سے چند ایک ہم یہاں پر بھی نقل کریں گے:

”اب ذرا یوسف علی کے جانشین (چیلے) مسعود رضا کی تصنیف ”علی نامہ“ ملاحظہ فرمائیں جو اس نے اپنے مرشد (گورو) یوسف علی سے منسوب کی ہے، ”علی نامہ“ کے صفحہ 25 پر سر جاناں کے عنوان سے ایک طویل نظم ہے، اس کے پہلے چار شعر درج ذیل ہیں:

سر موجودات، فخر دو جہاں، یوسف علی

قطب عالم، کرسی عرش و مکاں، یوسف علی

ہے زلیخا وجد میں، ماہ کنعاں بے ہوش ہیں

دیکھ کر جانِ جہاں، جانِ قرآں، یوسف علی

ہیں وریٰ، ثم الوریٰ، ظن بشر سے ماوریٰ

نقطہ ب کا بیاں، رازِ عیاں، یوسف علی

حاصل مے خانہ مستی و ناز و خستگی

اک بشر کے روپ میں رب جہاں، یوسف علی

یہاں یوسف علی مقام نبوت پر ہی نہیں، مقام الوہیت پر بھی براجمان ہے۔ ”نقطہ ب کا بیاں“ سے مراد ”بندے

 میں اللہ“ ہے، جسے یوسف علی سر الٰہی کہتا ہے، اور ”سیکرٹ“ رکھتا ہے“

(دیکھئے: ارشد قریشی صاحب کی مذکورہ بالا تصنیف، صفحہ 29، 30)

  

یوسف علی کی یہ عبارت بھی ”باطنی“ مذہب کا مطالعہ کر رکھنے والے کسی بھی طالب علم کے کان کھڑے کر دینے کیلئے بہت کافی ہے:

آڈیو کیسٹ کا حوالہ: یوسف علی نے 28 فروری 1997ءکو بیت الرضا لاہور میں جو تقریر کی تھی اور جس کی آڈیو کیسٹ محفوظ ہے (دیکھیں دستاویزات: 1:- آڈیو کیسٹ)، اس تقریر کے دوران یوسف علی کہتا ہے:

”اے دنیا کے علماء! عالم کی تعریف صرف یہ ہے کہ وہ کھلی آنکھوں سے رسول اللہ کا دیدار کرتا ہو، ان کو دیکھ کر بیان کرتا ہو، ہم چیلنج کرتے ہیں کہ تمہارے قرآن کے تمام ترجمے ناقص ہیں، غلط ہیں، اور تمہیں اجازت صرف اس لئے دی گئی ہے کہ تم اپنی جہالت کو پھیلا سکو تاکہ یہ کھیل مزیدار بن سکے، لیکن یاد رکھنا تمہاری تاریکی اور ظلمت چاہے پوری کائنات پر چھائی کیوں نہ ہو ایک آفتاب آ کر سارے اندھیرے کو دور کر دیتا ہے 

(نعرۂ تکبیر، نعرۂ رسالت)

آؤ دلیل لینی ہے تو ہم سے دلیل لو۔ سب کچھ کون ہیں؟ محمد۔ یہ ادب کی بات ہے کہ چونکہ محمد رسول اللہ نے کہا ہے اس لئے لفظ اللہ کا لیا ہے۔ ایک ہی لفظ ہے، اللہ محمد ایک ہے۔ سب کچھ کون ہیں سب کچھ کون ہیں؟ محمد۔ جب وہ محمد منزہ ہوتے ہیں اللہ کہلاتے ہیں۔ جب وہ محمد مبرا ہوتے ہیں ھو کہلاتے ہیں۔ جب وہ محمد اظہار کرتے ہیں نبی کہلاتے ہیں۔ جب وہ محمد مشبہ ہوتے ہیں رسول اللہ کہلاتے ہیں۔“

ویڈیو کیسٹ کا حوالہ: یوسف علی اپنی ویڈیو کیسٹ میں محفوظ (دیکھیں دستاویزات: 3- ویڈیو کیسٹ) تقریر کے دوران مزید کہتا ہے :

”آج مجھے ایک سوال آپ سے پوچھنا ہے کہ دین کے خادم غالب آئیں گے کہ نہیں آئیں گے۔ اللہ نہ کرے کہ کجا دین کے خادم غالب آئیں۔ یہی دقت ہوتی ہے۔ یہ کیا کرتا ہے جی؟ دین کی خدمت کرتا ہے! یہ خادمِ اسلام ہے! سنتے نہیں؟ آپ بتائیں کہ نہیں! کیوں بھئی یہ کہنا کہ اللہ نہ کرے کجا دین کے خادم کے غالب آئیں۔ اللہ نہ کرے۔ اگر غالب آئیں گے ستیاناس اسلام کا کر دیں گے۔ اپنا بھی اور سب کا بھی۔ اسلام کس لئے ہے؟ تاکہ آپ کو اس قابل بنائے کہ آقا کی آپ خدمت کر سکیں۔ آپ آقا کے خادم ہیں دین کے خادم نہیں۔ دین آپ کی خدمت کے لئے، آپ آقا کی خدمت کے لئے ہیں، کچھ تو خیال کرو یار۔ پر رب کریم آپ خود موجود ہوں۔ قرآن کی کوئی آیت تو نکالیں کہ اللہ نے یہ کہا ہو کہ اے انسان تو دین کی خدمت کے لئے ہے، بڑا عجیب نکتہ ہے۔ دین آپ کو اس قابل بناتا ہے کہ آپ آقا تک پہنچ سکیں۔“

(دیکھئے: ارشد قریشی صاحب کی مذکورہ بالا تصنیف، صفحہ 101، 102)

  

تو حضرات! غور کیا آپ نے؟: ’اِک بشر کے روپ میں ربِ جہاں، یوسف علی‘!

لعنۃ اللہ علی الکافرین

یہاں دعوائے نبوت کی کیا ضرورت ہے؟ ’نبوت‘ تو اب بہت پیچھے رہ جاتی ہے! یہاں تو، معاذ اللہ، عرش پر کمند پھینکی جا رہی ہے! باطنی مذہب اصل میں یہی ہے۔ مسئلہ سارے کا سارا ’پردوں‘ کا ہے، ورنہ تو سب ایک ہی جل تھل ہے؛ معاذ اللہ ثم معاذ اللہ، وہی عرش کے اوپر ہے وہی عرش کے نیچے ہے، وہی ساجد وہی مسجود، وہی عابد وہی معبود، وہی خالق وہی مخلوق، وہی آدمؑ، وہی مسیح بن مریمؑ، اور وہی محمد .... اور معاذ اللہ ثم معاذ اللہ، آخر میں وہی یوسف علی!!!

كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ إِن يَقُولُونَ إِلَّا كَذِبًا

بہت ہی بڑی بات ہے جو اِن کے مونہوں سے نکل آتی ہے، نہیں بکتے یہ مگر ایک بہت بڑا جھوٹ۔

”باطنیت“ کا مطالعہ کر رکھنے والے طالب علم جانتے ہیں، یوسف کذاب کے محولہ بالا افکار عین وہی ہیں، جن سے کام لے کر عیسائیت کی تاریخ میں پال نے دو کام کئے تھے: ایک، مسیح بن مریمؑ کو ”خدا کا مظہر“ اور خدا کا ”جائے حلول“ ٹھہرانا۔ اور دوسرا، دین کو انسان کا خادم ٹھہرا کر ”شریعت“ کی تنسیخ۔ ایسے شخص کے کافر ہونے کیلئے یہ بحث کیا ضروری ہے کہ اُس نے ’دعوائے نبوت‘ کے لئے کونسے لفظ بولے تھے اور کونسے لفظ بولنے سے ’احتراز‘ کیا تھا؟

جیسا کہ ہم نے عرض کی، ہم نے اِس ٹولے کو کسی خصوصی توجہ کے ساتھ موضوعِ مطالعہ نہیں بنایا، کیونکہ ایسے بے شمار ٹولے پیدا ہوتے اور مرتے کھپتے رہتے ہیں۔ البتہ اگر یہ بات صحیح ہے کہ یوسف کذاب کا پیروکار ٹولہ ”باطنیت“ کا ایک typical case ہے، تو پھر اس بات کی بھی توقع کرنی چاہیے کہ ”باطنیت“ کی کئی ایک سنتیں بھی اِس ٹولے کے ہاں لازماً ملحوظِ خاطر رکھی جاتی ہوں گی، جن میں سے ایک نہایت اہم سنت، کہ جس سے کوئی باطنی تحریک مستغنی نہیں رہ سکتی، ”اِخفاء“ ہے، یعنی اپنی حقیقت کو چھپا کر رکھنا، جس کو باطنیہ کی بعض شاخیں ’تقیہ‘ کے نام سے بھی جانتی ہیں۔ ”اِخفاء“ یعنی اپنی حقیقت پر پردہ ڈال کر رکھنا (اور اس ’پردہ‘ کو صرف ایسے ہی شخص کے آگے اٹھانا جو ’راز‘ کو ’اٹھا‘ سکے) باطنیہ کے دین کا ایک اہم ترین رکن باور ہوتا ہے اور ”اِفشاء“ (اپنی حقیقت اُن ’نا اہلوں‘ پر کھول دینا جو اِس ’قابل‘ ہی نہیں) ایک بدترین گناہ! باطنی کچھ بھی کر لیں گے ”اِفشاء“ کی نوبت نہیں آنے دیں گے۔ یوں یہ اپنے ساتھ لگنے والے لوگوں کو درجہ بدرجہ ’منازل‘ چڑھاتے چلے جاتے ہیں۔ اِس سارے عمل میں ”اِخفاء“ ہی ان کا اصل طریقۂ واردات ہوتا ہے، جس سے یہ کبھی بھی دستبردار نہ ہوں گے، کیونکہ اِسی سے ہی اِن کی سب کامیابی وابستہ ہوتی ہے۔ مغرب میں ’خفیہ تنظیموں‘ کی صورت میں پایا جانے والا فنامنا، چاہے وہ ’فری میسن‘ ہو یا ’روٹری کلب‘ یا کچھ اور، حقیقت یہ ہے کہ وہ ہمارے عالم اسلام میں قدیم سے پائے جانے والے ’باطنی‘ فنامنا کے سامنے طفل مکتب بھی نہیں۔ حق یہ ہے کہ مغرب کسی ایک چیز میں بھی خود کفیل نہیں، سب کچھ اُس نے ’ہمارے ہاں‘ سے ہی سیکھ رکھا ہے!

٭٭٭٭٭

  

جیسا کہ ہم نے عرض کی.... اصل سوال تو ابھی باقی ہے۔ پوچھنے والوں کو اِس بات سے تو کچھ بہت زیادہ غرض نہیں کہ یہ صاحب یوسف کذاب کی بابت اپنا کیا ’عقیدہ‘ بیان کرتے ہیں۔ اُن کو تو کچھ ”وقائع“ جاننے سے غرض ہے کہ آیا وہ پیش آئے ہیں یا نہیں۔ ’نتیجہ‘ تو وہ خود بھی نکال سکتے ہیں:

- کیا یوسف کذاب نے کبھی بھی آپ کو اپنا صحابی کہا تھا؟

- کیا وہ آڈیو کیسٹ جو انٹر نٹ پر ہر جگہ گردش کرتی پھر رہی ہے، اور جس میں یوسف کذاب اپنی اُسی مجلس میں بیٹھے ہوئے (اپنے) سو ’صحابہ‘ کی موجودگی کا انکشاف کرتا ہے، اور پھر دو خصوصی ’صحابیوں‘ کا تعارف کرواتا ہے، جن میں سے صاف صاف وہ ایک ’صحابی‘ کا نام عبد الواحد بتاتا ہے اور دوسرے ’صحابی‘ کا نام ”سید زید زمان حامد“ (اِس آڈیو کی کچھ تفصیل آگے آ رہی ہے).... کیا وہ آڈیو کیسٹ اصلی ہے یا کسی ’دشمن اسلام‘ نے جعلی بنا رکھی ہے؟

(جبکہ وہ کیسٹ عدالت میں بھی پیش ہو چکی ہے، عدالت کتنی ہی ’طاغوتی‘ ہو، اور ’خلافت‘ کے بغیر کام کرتی ہو (خدا جانے اُس ’خلافت‘ میں ’خلیفہ‘ کس کا ہو گا)، پھر بھی ایک کیسٹ کی authenticity کو چیک کرنے کا کوئی نہ کوئی پروسیجر ضرور اختیار کیا گیا ہو گا)

- کیا اُسی مجلس میں، جب یوسف کذاب (اپنے) (1) دو ’صحابیوں‘ کو باری باری تعارف کرانے کے بعد حاضرین مجلس سے مخاطب ہونے کا موقعہ دیتا ہے، پہلا ’صحابی‘ عبد الواحد چند منٹ کیلئے حاضرین سے خطاب کرتا ہے، اور اپنے پیر کی تعریفات و القاب بیان کرنے کے بعد بیٹھ جاتا ہے، تو پھر دوسرا ’صحابی‘ زید زمان حاضرین سے مختصر خطاب کرتا ہے اور اپنے پیر کی تعریف میں قلابے ملا کر اور اس کے کمالات بیان کر کے اپنی گفتگو ختم کرتا ہے، کیا آپ اُس ”سید زید زمان حامد“ سے واقف ہیں؟ ایک بے حد سادہ سوال ہے۔

- کیسٹ میں ہر شخص جس ”سید زید زمان حامد“ کی گفتگو سنتا ہے، اُس کی آواز، آہنگ، تلفظ اور سب کے سب صوتی خصائص نہایت ’سنے سنے‘ سے لگتے ہیں، اور ان کو اُس آواز کی بابت کوئی شک ہی نہیں رہ جاتا۔ کیا اِن سب لوگوں کے کان اُن کو دھوکہ دے رہے ہیں؟؟؟ یقین کیجئے لوگ سب سے زیادہ تو اِس بات کو جاننے کے متمنی ہیں!

- اور اگر ان کے کان ان کو دھوکہ نہیں دے رہے، تو اِس بات کا کہاں تک امکان ہے کہ اول اول جب آپ پر یوسف کذاب کے ساتھ تعلق رکھنے کا الزام لگا تھا، اور جب یہ آڈیو کیسٹ انٹرنیٹ پر ’افادۂ عام‘ کیلئے میسر نہیں تھی، اِس الزام کو قطعی طور پر ٹھکرا کر آپ ایک جھوٹ بول بیٹھے ہوں، جس کو اب نہ نگلا جا سکتا ہے اور نہ اگلا؟

 آڈیو کیسٹ میں یوسف علی کذاب کی 28 فروری 1997ءکو بیت الرضاءلاہور میں کی گئی تقریر سے کچھ اقتباسات: 

یہ کیسٹ جو عدالت میں یوسف کذاب کے خلاف ایک ثبوت کے طور پر پیش کی گئی تھی، اور یوسف کذاب پر لکھی گئی بعض کتب میں بھی حوالہ کے طور پر نقل ہوئی ہے، اب انٹرنیٹ پر عام دستیاب ہے۔ ہم اِس کو خود سن چکے ہیں، کئی ایک آوازیں بھی پہچاننا مشکل نہیں۔ انٹر نیٹ پر اس وقت یہ جس لنک سے لی جا سکتی ہے، وہ بھی اقتباسات کے آخر میں۔ آئیے اِس کیسٹ کے بعض مقاطع دیکھیں:

  

اجلاس میں یوسف علی کذاب کے تعارفی کلمات : 

” کائنات کے سب سے خوش قسمت ترین انسانو ! اللہ سے محبت کرنے والے صاحبانِ ایمان حضور سے وابستہ ہونے والو ! ان پر وارفتہ ہونے والے صاحبان نصیب انسانو ! آپ کو مبارک ہو کہ آج آپ کی محفل میں اللہ بھی موجود ہے ، قرآن بھی موجود ہے اور آپ بھی موجود ہیں ۔ ہر ایک اپنی جگہ ایک آیت ، کچھ ایک پارہ ہیں ، کچھ کو پارہ کی پہچان ہے ، جن کو پارہ کی پہچان ہے ، ان کو قرآن کی پہچان ہے ۔ 

آج نور کی کرنیں بھی نچھاور کرنی ہیں اور نور کے سفر میں جو لوگ انتہائی معراج پر پہنچ گئے ہیں ان سے بھی آپ کا تعارف کرانا ہے ۔ 

آج کم از کم اس محفل میں سو (100) صحابہ موجود ہیں ۔ 100اولیاءاللہ موجود ہیں ، ہر عمر کے لوگ موجود ہیں ۔ بھئی صحابی وہی ہوتا ہے ناں جس نے رسولِ اکرم سے ایمان کے ساتھ وقت گزارا ہو اور اس پر قائم ہو گیا ہو ۔ اور رسول ہیں ناں اور اگر ہیں تو ان کے صحابہ بھی ساتھ ہیں ۔ جو مصاحب ہیں وہی تو صحابی ہیں ۔ ان صحابہ کے ذریعے کائنات میں رنگ لگا ہوا ہے ۔ ان کے ذریعے کائنات میں رزق تقسیم ہو رہا ہے ، ان کے ذریعے شادی بیاہ ہو رہے ہیں ، ان کے صدقے پانی مل رہا ہے ، ان کے صدقے ہوا چل رہی ہے ، ان کے صدقے چاند پر چاندنی ہے ، ان کے صدقے سورج پر روشنی ہے ۔ یہ نہ ہوں تو اللہ بھی قسم اٹھاتا ہے کچھ بھی نہ ہو ۔ حتی کہ جو سانس آرہا ہے یہ بھی ان کے صدقے ہے ۔ یہ ہیں وہ صحابہ ۔ اور یہ بھی آپ کو علم ہے کہ دنیاکے کتنے بھی بڑے ولی کیوں نہ ہوں ، لاکھوں کرڑوں ان کے مرید کیوں نہ ہوں ۔ ان صحابہ کے گھوڑوں کی سواری کے پیچھے گرد اٹھتی ہے اس کے برابر بھی وہ پیرو نہیں ہو سکتا ۔ جس کے لاکھوں کرڑوں مرید ہیں ، کیوں کہ وہ پیر اور ولی ہیں اللہ کو دیکھے بغیر ۔ یہ ہیں دیکھ کر ۔

۔۔۔

یوسف علی اپنے پہلے خصوصی ’صحابی‘ کا تعارف کراتا ہے:

ان صحابہ میں سے ایک ایک جو ہے وہ اپنی جگہ نمونہ ہے اور ایک ایک کا تعارف کرانے کو جی چاہتا ہے لیکن ہم جن صحابہ کا تعارف کروائیں گے عمر کے لحاظ سے دونوں نوجوان ہیں ، حقیقت کے لحاظ سے دونوں نوجوان ہیں ۔ ایک وہ خوش قسمت ہستی ہیں کہ اس کائنات میں وہ واحد ہستی ہیں ۔ نام بھی ان کا عبدالواحد ہے ۔ محمد عبدالواحد ۔ 

ایک ایسے صحابی ایسے ولی اللہ ہیں کہ پوری کائنات میں جن کا خاندان سب سے زیادہ تقریبا سارے کا سارا خاندان وابستہ رسول ہیں ، وارفتہ ہیں اور محمد الرسول سے وابستہ ہو کر محمد مصطفی تک پہنچا ہے اور محمد کے ذریعے محمد ذاتِ سبحان تک پہنچا ہے ۔

(نعرہ تکبیر ! نعرہ رسالت ! )

۔۔۔۔

یوسف علی کی مجلس میں عبدالواحد کی مختصر تقریر 

آج سے 25 سال پہلے ایک بزرگ سے مکہ میں ایک شعر سنا جو صبح سے میرے کانوں میں گونج رہا ہے۔ انھوں نے فرمایا تھا ۔ 

میں کہاں اور یہ نکہت گل کہاں 

نسیم صبح یہ تیری مہربانی 

ایک بات ۔ شعر تو بہت پسند آیا ، لیکن اب نہ لگا کر حق کا کرم اور اس کی رحمت اس کے خالص کرم کے لیے نکہت گل اور نسیم سحر بھی اور گل بھی ، یہ سب بھی موجود ہیں ۔ یہ ایک لباس میں چھپے ہوئے ہیں۔ علامہ اقبال نے کہا ہے 

کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں 

کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں 

مبارک ہو کہ اب انتظار کی ضرورت نہیں ۔ علامہ اقبال تو منتظر تھے ۔ 

الحمد اللہ ذاتِ حق عیاں ہو گیا ، مبارک ہو ( نعرۂ تکبیر ) 

یوسف علی اب اپنے دوسرے خصوصی ’صحابی‘ کا تعارف کراتا ہے:

اور دوسرا تعارف اس نوجوان صحابی اس نوجوان ولی کا کراؤں گا جس کے سفر کا آغاز ہی صدیقیت سے ہوا تھا اور جس رات مجھے نیابتِ مصطفی ہوئی تھی، اگلی صبح ہم کراچی گئے تھے اور سب سے پہلے وارفتہ ہونے والی وہ ہستی [زید زمان حامد ] ہی تھے آئیے سید زید زمان (نعرۂ تکبیر ) ۔۔۔۔

اور اب یوسف علی کی مجلس میں زید زمان حامد مختصر تقریر کرتے ہیں:

برسوں ایک سفر کی آرزو رہی۔ کتابوں میں پڑھا تھا چالیس چالیس سال پچاس پچاس سال چلے کیے جاتے تھے ، ریاضت اور مجاہدہ ہوتا تھا ۔ میرے آقا سیدنا علیہ الصلوة والسلام کی انتہا سے شدید انتہائی محبت کے بعد ایک طویل سفر ، ریاضت اور مجاہدے کا گزارا جاتا تھا تو آقا ﷺ کی زیارت ہوتی تھی ۔ کہاں یہ ماحول ، کس کے پاس وقت ہے کہ چلے کرے ۔ کس کے پاس وقت ہے کہ صدیوں کی عبادت کرے اور پھر دیدار نصیب ہو ۔ تڑپ تو تھی کہ زیارت و دیدار ایسا نصیب ہو کہ اِس جہا ںمیں نہیں، صرف لا مکاں میں نہیں، ثم الوریٰ ثم الوریٰ ثم الوریٰ وصل قائم رہے۔ مگر اب راز سمجھ میں آیا کہ زہد ہزاروں سال کا اور پیار کی نگاہ ایک طرف ۔ 
 نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں 

اپنے کسی پیارے کو دیکھیں جو پیار کی نگاہ دے تو صدیوں کا سفر لمحوں میں طے ہو جائے ۔ ( نعرہ تکبیر) 

(کیسٹ میں سید زید زمان کی گفتگو ختم ہوتی ہے)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  

مجلس میں یوسف کذاب کی گفتگو جاری ہے:

سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے غارِ حرا کو کیوں چنا ، تو جس حکمت کے تحت اللہ نے غارِ حرا کو چنا تھا اسی حکمت کے تحت بیت الرضاءکو چن لیا ہے ۔ ۔۔۔ 

آج ہم نے چیلنج نہیں کرنا ، اے دنیا کے علماؤ ! عالم کی تعریف صرف یہ ہے کہ وہ کھلی آنکھوں سے اللہ کا دیدار کرتا ہو ، ان کو دیکھ کر بیان کرتا ہو ، ہم چیلنج کرتے ہیں کہ تمھارے قرآن کے تمام ترجمے ناقص ہیں ، غلط ہیں اور تمھیں اجازت صرف اس لیے دی گئی کہ تم اپنی جہالت کو پھیلا سکو ، تاکہ کھیل مزیدار بن سکے ، لیکن یاد رکھنا ، تمھاری تاریکی اور ظلمت چاہے پوری کائنات پر چھائی کیوں نہ ہو ، ایک آفتاب آکر سارے اندھیرے کو دور کر دیتا ہے ۔ ۔۔۔

آؤ دلیل لینی ہے تو ہم سے دلیل لو ۔ سب کچھ کون ہیں؟ محمد ۔ یہ ادب کی بات ہے کہ چونکہ محمد رسول اللہ نے لفظ اللہ کا لیا ہے ، ایک ہی لفظ ہے ۔ اللہ محمد ایک ہے ، سب کچھ کون ہے؟ محمد ۔ سب کچھ کون ہے؟ محمد۔ جب وہ محمد مصطفی ہوتے ہیں تو اللہ کہلاتے ہیں ، جب وہ محمد اظہار کرتے ہیں ھو کہلاتے ہیں ۔ جب وہ محمد مشبہ ہوتے ہیں تو رسول کہلاتے ہیں اور یہ کھیل کیوں کھیلا گیا ۔۔۔۔
 جس انسان نے یہ اقرار کر لیا کہ میں اللہ محمد ہوں ، وہ تھا ماننے والا ! جس نے کہا میں نہیں ہوں ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا ، اس نے اپنا انکار کرکے حقیقت کا انکار کیا ہے ۔

 ۔۔۔ 

(اس آڈیو کا لنک انٹر نیٹ پر دیکھئے: 

 http://www.youtube.com/watch?v=O9MdAQr6CwY)

٭٭٭٭٭

چونکہ یہ مسئلہ دین سے وابستہ کثیر طبقوں کی توجہ لیتا رہا ہے، لہٰذا قارئین کو بتاتے چلیں، کہ پچھلے دنوں اسلام آباد میں ہمیں بھی اپنے بعض دیرینہ اصحاب سے مسمیٰ زید زمان حامد کی بابت اُن کی ذاتی معلومات جاننے کا اتفاق ہوا ہے۔ اِن معلومات کو اب ہم اپنے قارئین کے ساتھ بھی شیئر کر رہے ہیں۔ ہمارے یہ اصحاب جنہوں نے ہمیں زید زمان کی بابت اپنی ذاتی معلومات سے آگاہ کیا، ہمارے پرانے اصحاب ہیں اور الحمد للہ نہایت ثقہ و قابل اعتماد۔ ہمارے اِن اصحاب کے بقول: زید زمان اسلام آباد میں اول اول آئے تو اِن اصحاب نے وہاں پر کاروبار کے سلسلہ میں زید کو مدد بھی فراہم کی تھی۔ یہیں سے ایک تعلق بنا، اور جلد ہی زیدزمان نے ان کو اپنے پیر سے بھی ملایا، جو کراچی سے آ کر اِن کے پاس ٹھہرتے تھے (لہٰذا اِن صاحب کی یہ بات ہمارے نزدیک سراسر جھوٹ ہے کہ کراچی چھوڑ دینے کے بعد اِنہوں نے یوسف علی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھا)۔ ہمارے اصحاب نے ہمیں بتایا کہ زید زمان نے اِن کو بھی اپنے پیر سے بیعت کروانے کی کوشش کی۔ انہوں نے اسلام آباد راولپنڈی کی کچھ مزید اہم اہم شخصیات کا بھی ذکر کیا جن کو اپنے پیر سے بیعت کروانے کیلئے زید زمان نے پورا زور لگا رکھا تھا۔ زید زمان کے پیر کے حوالے سے ہمارے اِن اصحاب نے بتایا کہ اِن ملاقاتوں میں جو زید زمان نے اِن کی اپنے پیر کے ساتھ کرائیں، محمد ﷺ کی بابت اُس (یوسف علی) کی کچھ ہرزہ سرائی انہوں نے بھی یوسف علی کی زبان سے سنی تھی، گو وہ سب باتیں اُس سے سننے کا اِنہیں موقعہ نہیں ملا جو بعد ازاں یوسف کذاب کے دعووں کی بابت ذرائع ابلاغ سے سننے کو ملیں۔ ہمارے اِن اصحاب نے ہمیں بتایا کہ آخر زید زمان کے ساتھ اِن کے تعلق کا خاتمہ اِسی سبب سے ہوا کہ اِنہوں نے زید زمان سے کہا کہ اگر تم اپنے اِن پیر صاحب کے ساتھ تعلق ختم نہیں کرتے تو ہمارے ساتھ کوئی تعلق مت رکھنا۔ جس پر، ہمارے اِن ثقہ اصحاب کے بقول، زید زمان کا جواب تھا: میں اپنے والدین تک کو چھوڑ سکتا ہوں، اپنے پیر کو نہیں۔ یہاں پر ہمارے اِن اصحاب کا ان سے تعلق ختم ہو گیا۔

اِس سے کم از کم ہمیں یہ جاننے میں بھی مدد ملی کہ اِن صاحب کا اپنے پیر کے ساتھ تعلق کس نوعیت کا تھا۔ یہ یوسف کذاب کے ساتھ جس ’سرسری سی واقفیت‘ کا تاثر دیتے ہیں، وہ صاف جھوٹ ہے۔

٭٭٭٭٭

یقینا امت محمد میں اللہ تعالیٰ نے بہت خیر رکھی ہے۔ یہاں لوگ حد سے زیادہ مہربان ہوتے ہیں اور ایک آدمی کیلئے از خود کوئی عذر ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں، جس کو بنیاد بنا کر وہ کسی شخص کا معاملہ رفع دفع جانیں۔ خصوصاً جبکہ وہ ایک شخص سے کئی اچھی باتیں صادر ہوتی ہوئی بھی دیکھ چکے ہوں، پھر تو ان کا دل چاہتا ہی نہیں کہ اُس کی بابت بری رائے رکھیں۔ ایسے آدمی کے بارے میں اچھی رائے رکھنے کیلئے ان کو محض کوئی بہانہ درکار ہوتا ہے۔ آدمی اِس معاملہ میں کوئی تھوڑی سی بھی اِن کی مدد کر دے تو یہ اُس کے شکر گزار ہوتے ہیں۔ یہ امت محمد میں اللہ کے فضل سے خیر کی علامت ہے۔ لیکن اس کو بے وقوفی اور سادہ لوحی پر محمول کرنا حد درجہ زیادتی ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کا یہ اعلیٰ وصف خود ہی بیان فرمایا ہے:

المؤمنُ غِرٌ کرِیمٌ، والفاجرٌ خِبٌّ لَئِیم 

(الترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاءفی البخیل،

اَبو داود: کتاب اَلادب، باب حسن العشرۃ حسنہ ال اَلبانی)

یعنی: مومن اپنی بلند ظرفی کے باعث دھوکا تک کھا لیتا ہے۔ جبکہ ایک فاجر شخص کمینہ اور چھوٹی چھوٹی بات پر اڑنے والا ہوتا ہے۔

یقینا لوگ اِن صاحب سے بھی امید رکھتے ہیں کہ یہ لوگوں کو بے وقوف بنانے کی بجائے اُن کو کوئی ایسی معقول وجہ فراہم کریں جس کو بنیاد بنا کر وہ اِن کے بارے میں اچھی رائے قائم کر سکیں۔

سچ ہے، انسان پر زندگی میں بہت دور آتے اور جاتے ہیں۔ انسان طرح طرح کے افکار سے متاثر ہوتا ہے، خصوصاً ایک ایسا آدمی جس کو علم شرعی کے اندر کوئی رسوخ نہ ہو۔ لوگ اِس دنیا میں توبہ تائب بھی ہوتے ہی ہیں اور اللہ تو ہے ہی معاف کرنے والا۔ بندے بھی سب ایسے نہیں جو معاف نہ کریں۔ خصوصاً، جیسا کہ ہم نے کہا، امت محمد میں تو خیر ہی بہت ہے۔ کسی کے بارے میں بری رائے قائم کرنا اور اس رائے کے دلائل دینا اہل اسلام کیلئے ایک بے حد ناگوار عمل ہے اور وہ بالعموم اِس کو اختیار نہیں کرتے۔ لوگوں کا سب سے زیادہ میلان اِسی جانب کو ہے کہ اِن صاحب کی بابت ’توبہ تائب‘ ہو چکا ہونے کاassumption اختیار کرنے کی ہی کوئی قابل یقین بنیاد ڈھونڈی جائے۔ پس ان صاحب کو چاہیے لوگوں کے اِس خیال اور اِس میلان کی راہ میں کم از کم مت حائل ہوں۔ یہ جب یوسف کذاب کی صفائیاں دینے کھڑے ہوتے ہیں کہ اُس نے تو کوئی ’ایسا ویسا‘ دعویٰ کیا ہی نہیں تھا اور یہ کہ اُس پر تو علماءنے اپنے پاس سے ہی کچھ بہتان گھڑ دیے تھے، تو درحقیقت یہ اُن لوگوں کا راستہ روک کر کھڑے ہو جاتے ہیں جو زید زمان کے تائب ہو چکا ہونے کے کچھ معقول شواہد ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں۔ بھئی جب ایک چیز ’گناہ‘ ہی نہیں تو یہ ’تائب‘ کس چیز سے ہوئے ہوں گے؟! ایک تعلق میں کوئی ’خرابی‘ ہو گی تو اُس پر ’نادم‘ ہونے کی نوبت آئے گی! لیکن آدمی ’پیر پر پانی‘ ہی نہ پڑنے دے، تو؟؟؟ ابھی تک وہی یوسف کذاب کا دفاع! ابھی تک وہی غلط بیانی گویا کذاب کے ساتھ کوئی سرگرم تعلق رہا ہی نہیں! (اور اُس کا صحابی ہونا تو گویا اور بھی دور کی بات ہے!) جبکہ معاملہ نصف النہار کی طرح نظر آ رہا ہو! اِس سے ایک ہی تاثرمضبوط ہو گا اور وہ یہ کہ یہ صاحب اب بھی چکر دے رہے ہیں۔

سو، یوسف کذاب سے تعلق کو تو اب یہ مت چھپائیں، کیونکہ اس سے تو پانی بہت آگے گزر گیا ہے، (خدا بیڑا غرق کرے انٹر نیٹ کا!) اور یوسف کذاب کو ’بے گناہ‘ ثابت کرنے کی کوشش تو خیر بالکل ہی مت کریں۔ فکر کریں تو اب اپنی، یوسف کذاب کو بھلا آدمی باور کرانے پر زور لگانا اِس ڈھیر ساری ذہانت کا ایک غیر ضروری مصرف ہوگا۔ وہ تو ڈوبا ہے، اُس کے ساتھ ڈوبنے کا فائدہ؟ دنیا میں، یا آخرت میں؟؟؟

خدا کرے آپ نے توبہ کر لی ہو، البتہ توبہ آپ نے اُسی صورت کی ہو گی، جب کوئی چیز ”گناہ“ نظر آئی ہو گی۔ جہاں تک اس ’چیز‘ کا تعلق ہے تو اُس کو چھپانا اور اُس سے متعلق لوگوں کے چیختے دھاڑتے سوالات کی بابت مسلسل یہ رویہ رکھنا گویا بات ’سن‘ نہیں رہی یا ’سمجھ‘ نہیں آ رہی، اب ایک فضول کوشش ہے۔ ”توبہ“ کیلئے البتہ یہی ضروری ہے کہ کسی چیز کو پہلے ’گناہ‘ بھی مانا جائے۔ البتہ یہ معاملہ ہے آپ کے اور اللہ کے مابین۔ لوگوں سے آپ بے پروا ہو جانا چاہتے ہیں، تو یہ بھی کوئی غلط بات نہیں۔ لیکن اُس صورت میں لوگوں کو مسلسل غلط معلومات فراہم کرنا سمجھ سے بالاتر ہو جاتا ہے، خصوصاً جبکہ لوگ اب پوری تصویر بھی دیکھ رہے ہوں۔ البتہ تائب ہو جانے کے اِس پورے مفروضے کو اُس وقت سب سے زیادہ ٹھیس لگتی ہے بلکہ اچھی خاصی محنت سے بنایا گیا یہ مفروضہ ذہنوں کے اندر چکنا چور ہو جاتا ہے جب لوگ آپ سے یوسف کذاب کی ’بے گناہی‘ کے قصے سنتے ہیں!

آپ کے خیال میں آپ اتنے credible ہیں کہ یوسف کو بھی اپنے ساتھ بچا سکتے ہیں!!! جبکہ دیکھا یہ جا رہا ہے کہ وہ آپ کو لے ڈوبا ہے!!!!!

٭٭٭٭٭

آخری سوال یہ رہ جاتا ہے کہ ایک باطنی پس منظر رکھنے والی شخصیت توبہ کر لے (جبکہ اِس ”توبہ“ کا اب تک ہمیں کوئی علم نہیں) تو اُس کے ساتھ کیا معاملہ رکھا جائے؟ لوگوں کے معاملات کو یقینا ظاہر پر ہی چھوڑ رکھا جائے گا۔ دلوں کا حال اللہ کے علم میں ہے۔ البتہ ایسے کسی پس منظر کی حامل شخصیت کو مسلمانوں کی قیادت کے منصب پر فائز کرنا پھر بھی ایک غیر محتاط طرزِ عمل ہو سکتا ہے۔ الا یہ کہ مسلمانوں کے اہل علم ایسے کسی شخص کا عقیدہ سدھر جانے اور عمل میں اُس کے قابل بھروسہ ہو جانے پر اپنی بھر پور تسلی ظاہر کریں۔

کسی کی توبہ پر یقین کرنا ایک بات ہے اور اُس کو اہل اسلام کی قیادت کی کنجیاں تھما دینے میں احتیاط کرنا ایک اور چیز۔ کسی کی توبہ پایۂ ثبوت کو پہنچ بھی جائے، جو کہ یہاں محل نظر ہے، پھر بھی مؤخر الذکر امر میں محتاط ہونا شرعی احکام کی خلاف ورزی نہیں۔

  
٭٭٭٭٭


(1) ’اپنے‘ کے حوالے سے یوسف کذاب کا موقف تو بہت واضح ہے۔ کیونکہ وہ معاذ اللہ محمد ﷺ کو اپنے اندر جلوہ افروز قرار دیتا ہے۔ اب یہ سوال اِس ’صحابی‘ سے پوچھنا باقی ہے کہ یہ اپنے آپ کو کس کا صحابی سمجھ کر اٹھے اور مجلس میں خطاب فرمایا۔ ہر دو صورت میں پھنستے ہیں۔

Monday, September 12, 2011