مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَٰكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا

محمدﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے والد نہیں ہیں بلکہ خدا کے پیغمبر اور نبیوں (کی نبوت) کی مہر (یعنی اس کو ختم کردینے والے) ہیں اور خدا ہر چیز سے واقف ہے

Wednesday, December 28, 2011

sawal ghandam jawab chana

لوگوں کو اتنا کند ذہن جاننا ذہانت نہیں!

 یوسف کذاب کے ساتھ ’صحابیت‘ کا رشتہ؟

سوال گندم، جواب چنا!

  

انسانوں کے باہمی معاملہ و سلوک کے حوالہ سے اسلام میں جس چیز کا بار بار حکم ہوتا ہے اس کا نام ہے ”خدا خوفی“۔ کسی کے ساتھ زیادتی در اصل اپنے ساتھ زیادتی ہے، کیونکہ ہر چیز کا جواب آدمی کو قیامت کے روز دینا ہو گا۔ دنیا کے معاملات میں کسی پر زیادتی کر دینا بھی ظلم ہے مگر دین کے معاملہ میں کسی پر زیادتی کر دینا تو اور بھی بڑا ظلم ہے۔ بدترین سے بدترین دشمن ہو تو بھی اس پر بھی بہتان باندھ دینے کی اجازت بہر حال نہیں۔

زبان اور ’قلم‘ کی زیادتی بسا اوقات ہاتھ کی زیادتی سے سنگین تر ہوتی ہے۔ تو پھر اِس مسئلہ کی بابت، جو پچھلے دنوں بے حد زبان زدِ عام رہا اور کئی اصحاب نے ہم سے بھی اِس معاملہ میں رائے جاننا چاہی، کیا سمجھا جائے....؟ کیا ایک بے گناہ کے ساتھ زیادتی تو نہیں ہو رہی؟

بھئی اگر ایک صاحب بار بار جھوٹے نبی پر لعنت بھیج رہے ہیں، تو اُن پر اعتبار کرنے میں آخر مانع کیا ہے؟

”جھوٹے نبی“ پر بھیجتے ہیں نا! وہ اگر اُس کو سچا مانتے ہوں تو....؟

تو نبی تو پھر بھی نہیں مانتے....؟

’نیا نبی‘؟.... یا __ نعوذ باللہ __ ”محمد ﷺ کا فی زمانہ مظہر“....؟ یوسف کذاب کا تو اپنا دعویٰ ’نیا نبی‘ ہونے کا نہ تھا!

ہاں اِس بارے میں تو یہ صاحب کچھ ’وضاحت‘ نہیں کرتے۔ لوگوں کا سوال بار بار اُس دعویٰ کی بابت ہے جو یوسف کذاب سے منسوب ہے اور وہ یہ کہ آج کے دور میں وہ (معاذ اللہ) محمد ﷺ کا مظہر ہے۔ جبکہ یہ صاحب بار بار ’اُس‘ سوال کا جواب دیتے ہیں جو اِن سے پوچھا ہی نہیں گیا!

کیا یہ ’ذہین‘ ہونے کا ایک کھلا ثبوت نہیں؟!!!

یعنی اصل جواب تو اُس مسئلہ کا چاہیے تھا جس پر عدالت میں بے شمار حلفیہ شہادتیں سامنے آئیں (اور جوکہ آج بھی ریکارڈ پر ہیں) کہ یوسف کذاب نے لوگوں کو محمد ﷺ کے دیدار کی تاریخ اور وقت دیا اور بالآخر ”اپنا“ دیدار کرایا، اور کسی ’بے یقین‘ نے متجسسانہ سوال کیا تو اس پر کہا کہ ’ہم ہی تو محمد‘ ہیں۔ (ملاحظہ ہوں عدالت میں پیش ہونے والی وہ گواہیاں جو یوسف کذاب کے قریب رہنے والے لوگوں نے حلفیہ بیان کیں، اور جن کا ریکارڈ آج بھی دستیاب ہیں) کیا یوسف کذاب کے اِس دعوائے ’مظہر محمد ہونے‘ کی بابت بھی اِن صاحب کی طرف سے کوئی وضاحت آئی؟ کوئی ’لعنت‘ اِس حوالے سے بھی ریکارڈ پر ہو؟

نہیں، وہ تو نہایت ”واضح“ کر کے یہی کہے جاتے ہیں کہ وہ ہر جھوٹے نبی پر اور ہر اُس شخص پر جو محمد ﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کرے، لعنت بھیجتے ہیں!

اور جو محمد ﷺ ہونے ہی کا دعویٰ کرے....؟؟؟

ہاں، اس بارے میں تو وہ کچھ نہیں کہتے!!!!

یعنی سوال کچھ اور جواب کچھ!

لوگ اور کچھ نہیں کریں گے، ’ذہانت‘ کی داد تو دیں گے!

بخدا ہم بار بار حیران ہوئے۔ لوگوں نے سوال کو اچھا خاصا ”واضح“ کرنے کی کوشش کی۔ ہزارہا انداز میں پوچھنے کے جتن کر ڈالے۔ ہر بار ہم نے سوچا، اب تو سوال اتنا ”واضح“ ہے، آخر کچھ تو جواب آئے گا۔ کبھی خیال آیا، صاحب ”اونچا“ سنتے ہیں، مگر یہ دیکھ کر ڈھارس بندھتی کہ کچھ لوگ تو اب گلا پھاڑ کر ہی پوچھنے لگے ہیں: ’صاحب! یوسف کذاب کے ”محمد ﷺ ہونے کے دعویٰ“ کی بابت آپ کیا فرماتے ہیں، اور اُس کا صحابی یا جانشین ہونے کا کیا ماجرا ہے؟‘ ہر بار امید ہوتی، اب تو ”سوال“ ضرور ہی سمجھ آ گیا ہو گا۔ مگر ادھر شانِ استقامت دیکھتے تو ہر بار حیران رہ جاتے: ’جی ہاں، میں نے بہت واضح انداز میں بیان کر دیا ہے کہ میں ہر جھوٹے نبی پر اور محمد ﷺ کے بعد دعوائے نبوت کرنے والے ہر شخص پر لعنت بھیجتا ہوں۔ یہ وضاحت میں اتنی بار کر چکا ہوں، معلوم نہیں یہ لوگ کیا پوچھنا چاہتے ہیں؟‘

خدایا! کیا واقعی معلوم نہیں، یہ لوگ ’کیا‘ پوچھنا چاہتے ہیں؟!!

زچ ہو کر آخر تو بولنے اور ’پوچھنے‘ سے چپ ہوں گے ہی!

اور پھر اصل سوال تو ابھی باقی ہے۔ پوچھنے والوں کو اِس بات سے تو کچھ بہت زیادہ غرض نہیں کہ یہ صاحب یوسف کذاب کی بابت اپنا کیا ’عقیدہ‘ بیان کرتے ہیں۔ اِس ٹولے کے زیر استعمال رہنے والی سب تعبیرات اور اصطلاحات دیکھی جائیں تو ”گمراہ فرقوں“ کی تاریخ سے واقف کوئی ادنیٰ درجے کا طالب علم بھی یہ جاننے میں دیر نہ لگائے گا کہ یوسف کذاب اور اُس کے ٹولے کا کیس ”باطنیت“ کا ایک نہایت typical کیس ہے، جو کہ ہر کسی پر اتنا ہی ’راز‘ اِفشا کرتی ہے جتنا ’ہضم‘ کر لینا کسی کے بس میں ہو (پھر بھی کسی کسی وقت ’غلطی‘ ہو جاتی ہے اور ایک ’راز کے ناقابل شخص‘ اُس راز کو بیچ چوراہے کے لا دھرتا ہے اور یوں ’کھیل‘ خراب ہو جاتا ہے! جی ہاں ’کھیل‘.. خود ان لوگوں کے اپنے الفاظ میں، جیسا کہ آگے چل کر آپ دیکھیں گے)۔ 

بہت کم لوگوں کی توجہ اِس جانب جا سکی ہو گی کہ یہ باطنیت کا ایک نہایت ’مانوس‘ known قسم کا کیس ہے، جو کہ اِس سے پہلے قرامطہ، نصیریہ اور اسماعیلیہ وغیرہ ایسے ناموں سے ہو گزرے ہیں۔ ”باطنیت“ تو ”باطنیت“ ہے، جس کا مطلب ہی یہ ہے کہ ”ظاہر“ کچھ ہے تو ”باطن“ کچھ۔ ”ظاہر“ کے پردے میں ”باطن“۔ یعنی سامنے کچھ تو پس پردہ کچھ اور، جو کچھ ’دیدہ وروں‘ سے بہرحال نہیں چھپ سکتا، اور خدا اُن کو معاذ اللہ ہر ’روپ‘ میں نظر آ جاتا ہے! ایک نہایت دلچسپ کھیل جسے باطنیت کے داعی ’آنکھ مچولی‘ کے سے انداز میں جاہلوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ معاذ اللہ، گویا ’صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں‘۔ معاذ اللہ ثم معاذ اللہ، رب العالمین کے ’روپ‘! زنادقہ کا وہی پرانا موضوع، خدا کو اِسی دنیا میں دیکھنے اور دکھانے کے کاروبار اور دھندے۔ رب العالمین کو یہیں پر دیکھنے اور دکھانے اور ’پہنچنے اور پہنچانے‘ کے وہ سب تاریخی ہتھکنڈے۔ باطنیت کا یہی معروف زندقہ ہمیں اِس ٹولے کے ہاں بھی نظر آتا ہے۔

ہم نے اِس ٹولے کو کسی خصوصی توجہ کے ساتھ موضوعِ مطالعہ نہیں بنایا، پھر بھی چونکہ ”باطنیت“ اور ”گمراہ فرقے“ بطورِ طالبعلم ہمارا ایک موضوع ہے، یہاں پائی جانے والی ایک تصنیف ”فتنۂ یوسف کذاب“ مؤلفہ ارشد قریشی کی بعض عبارتیں ہماری توجہ لئے بغیر نہ رہ سکیں، جن میں سے چند ایک ہم یہاں پر بھی نقل کریں گے:

”اب ذرا یوسف علی کے جانشین (چیلے) مسعود رضا کی تصنیف ”علی نامہ“ ملاحظہ فرمائیں جو اس نے اپنے مرشد (گورو) یوسف علی سے منسوب کی ہے، ”علی نامہ“ کے صفحہ 25 پر سر جاناں کے عنوان سے ایک طویل نظم ہے، اس کے پہلے چار شعر درج ذیل ہیں:

سر موجودات، فخر دو جہاں، یوسف علی

قطب عالم، کرسی عرش و مکاں، یوسف علی

ہے زلیخا وجد میں، ماہ کنعاں بے ہوش ہیں

دیکھ کر جانِ جہاں، جانِ قرآں، یوسف علی

ہیں وریٰ، ثم الوریٰ، ظن بشر سے ماوریٰ

نقطہ ب کا بیاں، رازِ عیاں، یوسف علی

حاصل مے خانہ مستی و ناز و خستگی

اک بشر کے روپ میں رب جہاں، یوسف علی

یہاں یوسف علی مقام نبوت پر ہی نہیں، مقام الوہیت پر بھی براجمان ہے۔ ”نقطہ ب کا بیاں“ سے مراد ”بندے

 میں اللہ“ ہے، جسے یوسف علی سر الٰہی کہتا ہے، اور ”سیکرٹ“ رکھتا ہے“

(دیکھئے: ارشد قریشی صاحب کی مذکورہ بالا تصنیف، صفحہ 29، 30)

  

یوسف علی کی یہ عبارت بھی ”باطنی“ مذہب کا مطالعہ کر رکھنے والے کسی بھی طالب علم کے کان کھڑے کر دینے کیلئے بہت کافی ہے:

آڈیو کیسٹ کا حوالہ: یوسف علی نے 28 فروری 1997ءکو بیت الرضا لاہور میں جو تقریر کی تھی اور جس کی آڈیو کیسٹ محفوظ ہے (دیکھیں دستاویزات: 1:- آڈیو کیسٹ)، اس تقریر کے دوران یوسف علی کہتا ہے:

”اے دنیا کے علماء! عالم کی تعریف صرف یہ ہے کہ وہ کھلی آنکھوں سے رسول اللہ کا دیدار کرتا ہو، ان کو دیکھ کر بیان کرتا ہو، ہم چیلنج کرتے ہیں کہ تمہارے قرآن کے تمام ترجمے ناقص ہیں، غلط ہیں، اور تمہیں اجازت صرف اس لئے دی گئی ہے کہ تم اپنی جہالت کو پھیلا سکو تاکہ یہ کھیل مزیدار بن سکے، لیکن یاد رکھنا تمہاری تاریکی اور ظلمت چاہے پوری کائنات پر چھائی کیوں نہ ہو ایک آفتاب آ کر سارے اندھیرے کو دور کر دیتا ہے 

(نعرۂ تکبیر، نعرۂ رسالت)

آؤ دلیل لینی ہے تو ہم سے دلیل لو۔ سب کچھ کون ہیں؟ محمد۔ یہ ادب کی بات ہے کہ چونکہ محمد رسول اللہ نے کہا ہے اس لئے لفظ اللہ کا لیا ہے۔ ایک ہی لفظ ہے، اللہ محمد ایک ہے۔ سب کچھ کون ہیں سب کچھ کون ہیں؟ محمد۔ جب وہ محمد منزہ ہوتے ہیں اللہ کہلاتے ہیں۔ جب وہ محمد مبرا ہوتے ہیں ھو کہلاتے ہیں۔ جب وہ محمد اظہار کرتے ہیں نبی کہلاتے ہیں۔ جب وہ محمد مشبہ ہوتے ہیں رسول اللہ کہلاتے ہیں۔“

ویڈیو کیسٹ کا حوالہ: یوسف علی اپنی ویڈیو کیسٹ میں محفوظ (دیکھیں دستاویزات: 3- ویڈیو کیسٹ) تقریر کے دوران مزید کہتا ہے :

”آج مجھے ایک سوال آپ سے پوچھنا ہے کہ دین کے خادم غالب آئیں گے کہ نہیں آئیں گے۔ اللہ نہ کرے کہ کجا دین کے خادم غالب آئیں۔ یہی دقت ہوتی ہے۔ یہ کیا کرتا ہے جی؟ دین کی خدمت کرتا ہے! یہ خادمِ اسلام ہے! سنتے نہیں؟ آپ بتائیں کہ نہیں! کیوں بھئی یہ کہنا کہ اللہ نہ کرے کجا دین کے خادم کے غالب آئیں۔ اللہ نہ کرے۔ اگر غالب آئیں گے ستیاناس اسلام کا کر دیں گے۔ اپنا بھی اور سب کا بھی۔ اسلام کس لئے ہے؟ تاکہ آپ کو اس قابل بنائے کہ آقا کی آپ خدمت کر سکیں۔ آپ آقا کے خادم ہیں دین کے خادم نہیں۔ دین آپ کی خدمت کے لئے، آپ آقا کی خدمت کے لئے ہیں، کچھ تو خیال کرو یار۔ پر رب کریم آپ خود موجود ہوں۔ قرآن کی کوئی آیت تو نکالیں کہ اللہ نے یہ کہا ہو کہ اے انسان تو دین کی خدمت کے لئے ہے، بڑا عجیب نکتہ ہے۔ دین آپ کو اس قابل بناتا ہے کہ آپ آقا تک پہنچ سکیں۔“

(دیکھئے: ارشد قریشی صاحب کی مذکورہ بالا تصنیف، صفحہ 101، 102)

  

تو حضرات! غور کیا آپ نے؟: ’اِک بشر کے روپ میں ربِ جہاں، یوسف علی‘!

لعنۃ اللہ علی الکافرین

یہاں دعوائے نبوت کی کیا ضرورت ہے؟ ’نبوت‘ تو اب بہت پیچھے رہ جاتی ہے! یہاں تو، معاذ اللہ، عرش پر کمند پھینکی جا رہی ہے! باطنی مذہب اصل میں یہی ہے۔ مسئلہ سارے کا سارا ’پردوں‘ کا ہے، ورنہ تو سب ایک ہی جل تھل ہے؛ معاذ اللہ ثم معاذ اللہ، وہی عرش کے اوپر ہے وہی عرش کے نیچے ہے، وہی ساجد وہی مسجود، وہی عابد وہی معبود، وہی خالق وہی مخلوق، وہی آدمؑ، وہی مسیح بن مریمؑ، اور وہی محمد .... اور معاذ اللہ ثم معاذ اللہ، آخر میں وہی یوسف علی!!!

كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ إِن يَقُولُونَ إِلَّا كَذِبًا

بہت ہی بڑی بات ہے جو اِن کے مونہوں سے نکل آتی ہے، نہیں بکتے یہ مگر ایک بہت بڑا جھوٹ۔

”باطنیت“ کا مطالعہ کر رکھنے والے طالب علم جانتے ہیں، یوسف کذاب کے محولہ بالا افکار عین وہی ہیں، جن سے کام لے کر عیسائیت کی تاریخ میں پال نے دو کام کئے تھے: ایک، مسیح بن مریمؑ کو ”خدا کا مظہر“ اور خدا کا ”جائے حلول“ ٹھہرانا۔ اور دوسرا، دین کو انسان کا خادم ٹھہرا کر ”شریعت“ کی تنسیخ۔ ایسے شخص کے کافر ہونے کیلئے یہ بحث کیا ضروری ہے کہ اُس نے ’دعوائے نبوت‘ کے لئے کونسے لفظ بولے تھے اور کونسے لفظ بولنے سے ’احتراز‘ کیا تھا؟

جیسا کہ ہم نے عرض کی، ہم نے اِس ٹولے کو کسی خصوصی توجہ کے ساتھ موضوعِ مطالعہ نہیں بنایا، کیونکہ ایسے بے شمار ٹولے پیدا ہوتے اور مرتے کھپتے رہتے ہیں۔ البتہ اگر یہ بات صحیح ہے کہ یوسف کذاب کا پیروکار ٹولہ ”باطنیت“ کا ایک typical case ہے، تو پھر اس بات کی بھی توقع کرنی چاہیے کہ ”باطنیت“ کی کئی ایک سنتیں بھی اِس ٹولے کے ہاں لازماً ملحوظِ خاطر رکھی جاتی ہوں گی، جن میں سے ایک نہایت اہم سنت، کہ جس سے کوئی باطنی تحریک مستغنی نہیں رہ سکتی، ”اِخفاء“ ہے، یعنی اپنی حقیقت کو چھپا کر رکھنا، جس کو باطنیہ کی بعض شاخیں ’تقیہ‘ کے نام سے بھی جانتی ہیں۔ ”اِخفاء“ یعنی اپنی حقیقت پر پردہ ڈال کر رکھنا (اور اس ’پردہ‘ کو صرف ایسے ہی شخص کے آگے اٹھانا جو ’راز‘ کو ’اٹھا‘ سکے) باطنیہ کے دین کا ایک اہم ترین رکن باور ہوتا ہے اور ”اِفشاء“ (اپنی حقیقت اُن ’نا اہلوں‘ پر کھول دینا جو اِس ’قابل‘ ہی نہیں) ایک بدترین گناہ! باطنی کچھ بھی کر لیں گے ”اِفشاء“ کی نوبت نہیں آنے دیں گے۔ یوں یہ اپنے ساتھ لگنے والے لوگوں کو درجہ بدرجہ ’منازل‘ چڑھاتے چلے جاتے ہیں۔ اِس سارے عمل میں ”اِخفاء“ ہی ان کا اصل طریقۂ واردات ہوتا ہے، جس سے یہ کبھی بھی دستبردار نہ ہوں گے، کیونکہ اِسی سے ہی اِن کی سب کامیابی وابستہ ہوتی ہے۔ مغرب میں ’خفیہ تنظیموں‘ کی صورت میں پایا جانے والا فنامنا، چاہے وہ ’فری میسن‘ ہو یا ’روٹری کلب‘ یا کچھ اور، حقیقت یہ ہے کہ وہ ہمارے عالم اسلام میں قدیم سے پائے جانے والے ’باطنی‘ فنامنا کے سامنے طفل مکتب بھی نہیں۔ حق یہ ہے کہ مغرب کسی ایک چیز میں بھی خود کفیل نہیں، سب کچھ اُس نے ’ہمارے ہاں‘ سے ہی سیکھ رکھا ہے!

٭٭٭٭٭

  

جیسا کہ ہم نے عرض کی.... اصل سوال تو ابھی باقی ہے۔ پوچھنے والوں کو اِس بات سے تو کچھ بہت زیادہ غرض نہیں کہ یہ صاحب یوسف کذاب کی بابت اپنا کیا ’عقیدہ‘ بیان کرتے ہیں۔ اُن کو تو کچھ ”وقائع“ جاننے سے غرض ہے کہ آیا وہ پیش آئے ہیں یا نہیں۔ ’نتیجہ‘ تو وہ خود بھی نکال سکتے ہیں:

- کیا یوسف کذاب نے کبھی بھی آپ کو اپنا صحابی کہا تھا؟

- کیا وہ آڈیو کیسٹ جو انٹر نٹ پر ہر جگہ گردش کرتی پھر رہی ہے، اور جس میں یوسف کذاب اپنی اُسی مجلس میں بیٹھے ہوئے (اپنے) سو ’صحابہ‘ کی موجودگی کا انکشاف کرتا ہے، اور پھر دو خصوصی ’صحابیوں‘ کا تعارف کرواتا ہے، جن میں سے صاف صاف وہ ایک ’صحابی‘ کا نام عبد الواحد بتاتا ہے اور دوسرے ’صحابی‘ کا نام ”سید زید زمان حامد“ (اِس آڈیو کی کچھ تفصیل آگے آ رہی ہے).... کیا وہ آڈیو کیسٹ اصلی ہے یا کسی ’دشمن اسلام‘ نے جعلی بنا رکھی ہے؟

(جبکہ وہ کیسٹ عدالت میں بھی پیش ہو چکی ہے، عدالت کتنی ہی ’طاغوتی‘ ہو، اور ’خلافت‘ کے بغیر کام کرتی ہو (خدا جانے اُس ’خلافت‘ میں ’خلیفہ‘ کس کا ہو گا)، پھر بھی ایک کیسٹ کی authenticity کو چیک کرنے کا کوئی نہ کوئی پروسیجر ضرور اختیار کیا گیا ہو گا)

- کیا اُسی مجلس میں، جب یوسف کذاب (اپنے) (1) دو ’صحابیوں‘ کو باری باری تعارف کرانے کے بعد حاضرین مجلس سے مخاطب ہونے کا موقعہ دیتا ہے، پہلا ’صحابی‘ عبد الواحد چند منٹ کیلئے حاضرین سے خطاب کرتا ہے، اور اپنے پیر کی تعریفات و القاب بیان کرنے کے بعد بیٹھ جاتا ہے، تو پھر دوسرا ’صحابی‘ زید زمان حاضرین سے مختصر خطاب کرتا ہے اور اپنے پیر کی تعریف میں قلابے ملا کر اور اس کے کمالات بیان کر کے اپنی گفتگو ختم کرتا ہے، کیا آپ اُس ”سید زید زمان حامد“ سے واقف ہیں؟ ایک بے حد سادہ سوال ہے۔

- کیسٹ میں ہر شخص جس ”سید زید زمان حامد“ کی گفتگو سنتا ہے، اُس کی آواز، آہنگ، تلفظ اور سب کے سب صوتی خصائص نہایت ’سنے سنے‘ سے لگتے ہیں، اور ان کو اُس آواز کی بابت کوئی شک ہی نہیں رہ جاتا۔ کیا اِن سب لوگوں کے کان اُن کو دھوکہ دے رہے ہیں؟؟؟ یقین کیجئے لوگ سب سے زیادہ تو اِس بات کو جاننے کے متمنی ہیں!

- اور اگر ان کے کان ان کو دھوکہ نہیں دے رہے، تو اِس بات کا کہاں تک امکان ہے کہ اول اول جب آپ پر یوسف کذاب کے ساتھ تعلق رکھنے کا الزام لگا تھا، اور جب یہ آڈیو کیسٹ انٹرنیٹ پر ’افادۂ عام‘ کیلئے میسر نہیں تھی، اِس الزام کو قطعی طور پر ٹھکرا کر آپ ایک جھوٹ بول بیٹھے ہوں، جس کو اب نہ نگلا جا سکتا ہے اور نہ اگلا؟

 آڈیو کیسٹ میں یوسف علی کذاب کی 28 فروری 1997ءکو بیت الرضاءلاہور میں کی گئی تقریر سے کچھ اقتباسات: 

یہ کیسٹ جو عدالت میں یوسف کذاب کے خلاف ایک ثبوت کے طور پر پیش کی گئی تھی، اور یوسف کذاب پر لکھی گئی بعض کتب میں بھی حوالہ کے طور پر نقل ہوئی ہے، اب انٹرنیٹ پر عام دستیاب ہے۔ ہم اِس کو خود سن چکے ہیں، کئی ایک آوازیں بھی پہچاننا مشکل نہیں۔ انٹر نیٹ پر اس وقت یہ جس لنک سے لی جا سکتی ہے، وہ بھی اقتباسات کے آخر میں۔ آئیے اِس کیسٹ کے بعض مقاطع دیکھیں:

  

اجلاس میں یوسف علی کذاب کے تعارفی کلمات : 

” کائنات کے سب سے خوش قسمت ترین انسانو ! اللہ سے محبت کرنے والے صاحبانِ ایمان حضور سے وابستہ ہونے والو ! ان پر وارفتہ ہونے والے صاحبان نصیب انسانو ! آپ کو مبارک ہو کہ آج آپ کی محفل میں اللہ بھی موجود ہے ، قرآن بھی موجود ہے اور آپ بھی موجود ہیں ۔ ہر ایک اپنی جگہ ایک آیت ، کچھ ایک پارہ ہیں ، کچھ کو پارہ کی پہچان ہے ، جن کو پارہ کی پہچان ہے ، ان کو قرآن کی پہچان ہے ۔ 

آج نور کی کرنیں بھی نچھاور کرنی ہیں اور نور کے سفر میں جو لوگ انتہائی معراج پر پہنچ گئے ہیں ان سے بھی آپ کا تعارف کرانا ہے ۔ 

آج کم از کم اس محفل میں سو (100) صحابہ موجود ہیں ۔ 100اولیاءاللہ موجود ہیں ، ہر عمر کے لوگ موجود ہیں ۔ بھئی صحابی وہی ہوتا ہے ناں جس نے رسولِ اکرم سے ایمان کے ساتھ وقت گزارا ہو اور اس پر قائم ہو گیا ہو ۔ اور رسول ہیں ناں اور اگر ہیں تو ان کے صحابہ بھی ساتھ ہیں ۔ جو مصاحب ہیں وہی تو صحابی ہیں ۔ ان صحابہ کے ذریعے کائنات میں رنگ لگا ہوا ہے ۔ ان کے ذریعے کائنات میں رزق تقسیم ہو رہا ہے ، ان کے ذریعے شادی بیاہ ہو رہے ہیں ، ان کے صدقے پانی مل رہا ہے ، ان کے صدقے ہوا چل رہی ہے ، ان کے صدقے چاند پر چاندنی ہے ، ان کے صدقے سورج پر روشنی ہے ۔ یہ نہ ہوں تو اللہ بھی قسم اٹھاتا ہے کچھ بھی نہ ہو ۔ حتی کہ جو سانس آرہا ہے یہ بھی ان کے صدقے ہے ۔ یہ ہیں وہ صحابہ ۔ اور یہ بھی آپ کو علم ہے کہ دنیاکے کتنے بھی بڑے ولی کیوں نہ ہوں ، لاکھوں کرڑوں ان کے مرید کیوں نہ ہوں ۔ ان صحابہ کے گھوڑوں کی سواری کے پیچھے گرد اٹھتی ہے اس کے برابر بھی وہ پیرو نہیں ہو سکتا ۔ جس کے لاکھوں کرڑوں مرید ہیں ، کیوں کہ وہ پیر اور ولی ہیں اللہ کو دیکھے بغیر ۔ یہ ہیں دیکھ کر ۔

۔۔۔

یوسف علی اپنے پہلے خصوصی ’صحابی‘ کا تعارف کراتا ہے:

ان صحابہ میں سے ایک ایک جو ہے وہ اپنی جگہ نمونہ ہے اور ایک ایک کا تعارف کرانے کو جی چاہتا ہے لیکن ہم جن صحابہ کا تعارف کروائیں گے عمر کے لحاظ سے دونوں نوجوان ہیں ، حقیقت کے لحاظ سے دونوں نوجوان ہیں ۔ ایک وہ خوش قسمت ہستی ہیں کہ اس کائنات میں وہ واحد ہستی ہیں ۔ نام بھی ان کا عبدالواحد ہے ۔ محمد عبدالواحد ۔ 

ایک ایسے صحابی ایسے ولی اللہ ہیں کہ پوری کائنات میں جن کا خاندان سب سے زیادہ تقریبا سارے کا سارا خاندان وابستہ رسول ہیں ، وارفتہ ہیں اور محمد الرسول سے وابستہ ہو کر محمد مصطفی تک پہنچا ہے اور محمد کے ذریعے محمد ذاتِ سبحان تک پہنچا ہے ۔

(نعرہ تکبیر ! نعرہ رسالت ! )

۔۔۔۔

یوسف علی کی مجلس میں عبدالواحد کی مختصر تقریر 

آج سے 25 سال پہلے ایک بزرگ سے مکہ میں ایک شعر سنا جو صبح سے میرے کانوں میں گونج رہا ہے۔ انھوں نے فرمایا تھا ۔ 

میں کہاں اور یہ نکہت گل کہاں 

نسیم صبح یہ تیری مہربانی 

ایک بات ۔ شعر تو بہت پسند آیا ، لیکن اب نہ لگا کر حق کا کرم اور اس کی رحمت اس کے خالص کرم کے لیے نکہت گل اور نسیم سحر بھی اور گل بھی ، یہ سب بھی موجود ہیں ۔ یہ ایک لباس میں چھپے ہوئے ہیں۔ علامہ اقبال نے کہا ہے 

کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں 

کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں 

مبارک ہو کہ اب انتظار کی ضرورت نہیں ۔ علامہ اقبال تو منتظر تھے ۔ 

الحمد اللہ ذاتِ حق عیاں ہو گیا ، مبارک ہو ( نعرۂ تکبیر ) 

یوسف علی اب اپنے دوسرے خصوصی ’صحابی‘ کا تعارف کراتا ہے:

اور دوسرا تعارف اس نوجوان صحابی اس نوجوان ولی کا کراؤں گا جس کے سفر کا آغاز ہی صدیقیت سے ہوا تھا اور جس رات مجھے نیابتِ مصطفی ہوئی تھی، اگلی صبح ہم کراچی گئے تھے اور سب سے پہلے وارفتہ ہونے والی وہ ہستی [زید زمان حامد ] ہی تھے آئیے سید زید زمان (نعرۂ تکبیر ) ۔۔۔۔

اور اب یوسف علی کی مجلس میں زید زمان حامد مختصر تقریر کرتے ہیں:

برسوں ایک سفر کی آرزو رہی۔ کتابوں میں پڑھا تھا چالیس چالیس سال پچاس پچاس سال چلے کیے جاتے تھے ، ریاضت اور مجاہدہ ہوتا تھا ۔ میرے آقا سیدنا علیہ الصلوة والسلام کی انتہا سے شدید انتہائی محبت کے بعد ایک طویل سفر ، ریاضت اور مجاہدے کا گزارا جاتا تھا تو آقا ﷺ کی زیارت ہوتی تھی ۔ کہاں یہ ماحول ، کس کے پاس وقت ہے کہ چلے کرے ۔ کس کے پاس وقت ہے کہ صدیوں کی عبادت کرے اور پھر دیدار نصیب ہو ۔ تڑپ تو تھی کہ زیارت و دیدار ایسا نصیب ہو کہ اِس جہا ںمیں نہیں، صرف لا مکاں میں نہیں، ثم الوریٰ ثم الوریٰ ثم الوریٰ وصل قائم رہے۔ مگر اب راز سمجھ میں آیا کہ زہد ہزاروں سال کا اور پیار کی نگاہ ایک طرف ۔ 
 نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں 

اپنے کسی پیارے کو دیکھیں جو پیار کی نگاہ دے تو صدیوں کا سفر لمحوں میں طے ہو جائے ۔ ( نعرہ تکبیر) 

(کیسٹ میں سید زید زمان کی گفتگو ختم ہوتی ہے)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  

مجلس میں یوسف کذاب کی گفتگو جاری ہے:

سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے غارِ حرا کو کیوں چنا ، تو جس حکمت کے تحت اللہ نے غارِ حرا کو چنا تھا اسی حکمت کے تحت بیت الرضاءکو چن لیا ہے ۔ ۔۔۔ 

آج ہم نے چیلنج نہیں کرنا ، اے دنیا کے علماؤ ! عالم کی تعریف صرف یہ ہے کہ وہ کھلی آنکھوں سے اللہ کا دیدار کرتا ہو ، ان کو دیکھ کر بیان کرتا ہو ، ہم چیلنج کرتے ہیں کہ تمھارے قرآن کے تمام ترجمے ناقص ہیں ، غلط ہیں اور تمھیں اجازت صرف اس لیے دی گئی کہ تم اپنی جہالت کو پھیلا سکو ، تاکہ کھیل مزیدار بن سکے ، لیکن یاد رکھنا ، تمھاری تاریکی اور ظلمت چاہے پوری کائنات پر چھائی کیوں نہ ہو ، ایک آفتاب آکر سارے اندھیرے کو دور کر دیتا ہے ۔ ۔۔۔

آؤ دلیل لینی ہے تو ہم سے دلیل لو ۔ سب کچھ کون ہیں؟ محمد ۔ یہ ادب کی بات ہے کہ چونکہ محمد رسول اللہ نے لفظ اللہ کا لیا ہے ، ایک ہی لفظ ہے ۔ اللہ محمد ایک ہے ، سب کچھ کون ہے؟ محمد ۔ سب کچھ کون ہے؟ محمد۔ جب وہ محمد مصطفی ہوتے ہیں تو اللہ کہلاتے ہیں ، جب وہ محمد اظہار کرتے ہیں ھو کہلاتے ہیں ۔ جب وہ محمد مشبہ ہوتے ہیں تو رسول کہلاتے ہیں اور یہ کھیل کیوں کھیلا گیا ۔۔۔۔
 جس انسان نے یہ اقرار کر لیا کہ میں اللہ محمد ہوں ، وہ تھا ماننے والا ! جس نے کہا میں نہیں ہوں ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا ، اس نے اپنا انکار کرکے حقیقت کا انکار کیا ہے ۔

 ۔۔۔ 

(اس آڈیو کا لنک انٹر نیٹ پر دیکھئے: 

 http://www.youtube.com/watch?v=O9MdAQr6CwY)

٭٭٭٭٭

چونکہ یہ مسئلہ دین سے وابستہ کثیر طبقوں کی توجہ لیتا رہا ہے، لہٰذا قارئین کو بتاتے چلیں، کہ پچھلے دنوں اسلام آباد میں ہمیں بھی اپنے بعض دیرینہ اصحاب سے مسمیٰ زید زمان حامد کی بابت اُن کی ذاتی معلومات جاننے کا اتفاق ہوا ہے۔ اِن معلومات کو اب ہم اپنے قارئین کے ساتھ بھی شیئر کر رہے ہیں۔ ہمارے یہ اصحاب جنہوں نے ہمیں زید زمان کی بابت اپنی ذاتی معلومات سے آگاہ کیا، ہمارے پرانے اصحاب ہیں اور الحمد للہ نہایت ثقہ و قابل اعتماد۔ ہمارے اِن اصحاب کے بقول: زید زمان اسلام آباد میں اول اول آئے تو اِن اصحاب نے وہاں پر کاروبار کے سلسلہ میں زید کو مدد بھی فراہم کی تھی۔ یہیں سے ایک تعلق بنا، اور جلد ہی زیدزمان نے ان کو اپنے پیر سے بھی ملایا، جو کراچی سے آ کر اِن کے پاس ٹھہرتے تھے (لہٰذا اِن صاحب کی یہ بات ہمارے نزدیک سراسر جھوٹ ہے کہ کراچی چھوڑ دینے کے بعد اِنہوں نے یوسف علی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھا)۔ ہمارے اصحاب نے ہمیں بتایا کہ زید زمان نے اِن کو بھی اپنے پیر سے بیعت کروانے کی کوشش کی۔ انہوں نے اسلام آباد راولپنڈی کی کچھ مزید اہم اہم شخصیات کا بھی ذکر کیا جن کو اپنے پیر سے بیعت کروانے کیلئے زید زمان نے پورا زور لگا رکھا تھا۔ زید زمان کے پیر کے حوالے سے ہمارے اِن اصحاب نے بتایا کہ اِن ملاقاتوں میں جو زید زمان نے اِن کی اپنے پیر کے ساتھ کرائیں، محمد ﷺ کی بابت اُس (یوسف علی) کی کچھ ہرزہ سرائی انہوں نے بھی یوسف علی کی زبان سے سنی تھی، گو وہ سب باتیں اُس سے سننے کا اِنہیں موقعہ نہیں ملا جو بعد ازاں یوسف کذاب کے دعووں کی بابت ذرائع ابلاغ سے سننے کو ملیں۔ ہمارے اِن اصحاب نے ہمیں بتایا کہ آخر زید زمان کے ساتھ اِن کے تعلق کا خاتمہ اِسی سبب سے ہوا کہ اِنہوں نے زید زمان سے کہا کہ اگر تم اپنے اِن پیر صاحب کے ساتھ تعلق ختم نہیں کرتے تو ہمارے ساتھ کوئی تعلق مت رکھنا۔ جس پر، ہمارے اِن ثقہ اصحاب کے بقول، زید زمان کا جواب تھا: میں اپنے والدین تک کو چھوڑ سکتا ہوں، اپنے پیر کو نہیں۔ یہاں پر ہمارے اِن اصحاب کا ان سے تعلق ختم ہو گیا۔

اِس سے کم از کم ہمیں یہ جاننے میں بھی مدد ملی کہ اِن صاحب کا اپنے پیر کے ساتھ تعلق کس نوعیت کا تھا۔ یہ یوسف کذاب کے ساتھ جس ’سرسری سی واقفیت‘ کا تاثر دیتے ہیں، وہ صاف جھوٹ ہے۔

٭٭٭٭٭

یقینا امت محمد میں اللہ تعالیٰ نے بہت خیر رکھی ہے۔ یہاں لوگ حد سے زیادہ مہربان ہوتے ہیں اور ایک آدمی کیلئے از خود کوئی عذر ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں، جس کو بنیاد بنا کر وہ کسی شخص کا معاملہ رفع دفع جانیں۔ خصوصاً جبکہ وہ ایک شخص سے کئی اچھی باتیں صادر ہوتی ہوئی بھی دیکھ چکے ہوں، پھر تو ان کا دل چاہتا ہی نہیں کہ اُس کی بابت بری رائے رکھیں۔ ایسے آدمی کے بارے میں اچھی رائے رکھنے کیلئے ان کو محض کوئی بہانہ درکار ہوتا ہے۔ آدمی اِس معاملہ میں کوئی تھوڑی سی بھی اِن کی مدد کر دے تو یہ اُس کے شکر گزار ہوتے ہیں۔ یہ امت محمد میں اللہ کے فضل سے خیر کی علامت ہے۔ لیکن اس کو بے وقوفی اور سادہ لوحی پر محمول کرنا حد درجہ زیادتی ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کا یہ اعلیٰ وصف خود ہی بیان فرمایا ہے:

المؤمنُ غِرٌ کرِیمٌ، والفاجرٌ خِبٌّ لَئِیم 

(الترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاءفی البخیل،

اَبو داود: کتاب اَلادب، باب حسن العشرۃ حسنہ ال اَلبانی)

یعنی: مومن اپنی بلند ظرفی کے باعث دھوکا تک کھا لیتا ہے۔ جبکہ ایک فاجر شخص کمینہ اور چھوٹی چھوٹی بات پر اڑنے والا ہوتا ہے۔

یقینا لوگ اِن صاحب سے بھی امید رکھتے ہیں کہ یہ لوگوں کو بے وقوف بنانے کی بجائے اُن کو کوئی ایسی معقول وجہ فراہم کریں جس کو بنیاد بنا کر وہ اِن کے بارے میں اچھی رائے قائم کر سکیں۔

سچ ہے، انسان پر زندگی میں بہت دور آتے اور جاتے ہیں۔ انسان طرح طرح کے افکار سے متاثر ہوتا ہے، خصوصاً ایک ایسا آدمی جس کو علم شرعی کے اندر کوئی رسوخ نہ ہو۔ لوگ اِس دنیا میں توبہ تائب بھی ہوتے ہی ہیں اور اللہ تو ہے ہی معاف کرنے والا۔ بندے بھی سب ایسے نہیں جو معاف نہ کریں۔ خصوصاً، جیسا کہ ہم نے کہا، امت محمد میں تو خیر ہی بہت ہے۔ کسی کے بارے میں بری رائے قائم کرنا اور اس رائے کے دلائل دینا اہل اسلام کیلئے ایک بے حد ناگوار عمل ہے اور وہ بالعموم اِس کو اختیار نہیں کرتے۔ لوگوں کا سب سے زیادہ میلان اِسی جانب کو ہے کہ اِن صاحب کی بابت ’توبہ تائب‘ ہو چکا ہونے کاassumption اختیار کرنے کی ہی کوئی قابل یقین بنیاد ڈھونڈی جائے۔ پس ان صاحب کو چاہیے لوگوں کے اِس خیال اور اِس میلان کی راہ میں کم از کم مت حائل ہوں۔ یہ جب یوسف کذاب کی صفائیاں دینے کھڑے ہوتے ہیں کہ اُس نے تو کوئی ’ایسا ویسا‘ دعویٰ کیا ہی نہیں تھا اور یہ کہ اُس پر تو علماءنے اپنے پاس سے ہی کچھ بہتان گھڑ دیے تھے، تو درحقیقت یہ اُن لوگوں کا راستہ روک کر کھڑے ہو جاتے ہیں جو زید زمان کے تائب ہو چکا ہونے کے کچھ معقول شواہد ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں۔ بھئی جب ایک چیز ’گناہ‘ ہی نہیں تو یہ ’تائب‘ کس چیز سے ہوئے ہوں گے؟! ایک تعلق میں کوئی ’خرابی‘ ہو گی تو اُس پر ’نادم‘ ہونے کی نوبت آئے گی! لیکن آدمی ’پیر پر پانی‘ ہی نہ پڑنے دے، تو؟؟؟ ابھی تک وہی یوسف کذاب کا دفاع! ابھی تک وہی غلط بیانی گویا کذاب کے ساتھ کوئی سرگرم تعلق رہا ہی نہیں! (اور اُس کا صحابی ہونا تو گویا اور بھی دور کی بات ہے!) جبکہ معاملہ نصف النہار کی طرح نظر آ رہا ہو! اِس سے ایک ہی تاثرمضبوط ہو گا اور وہ یہ کہ یہ صاحب اب بھی چکر دے رہے ہیں۔

سو، یوسف کذاب سے تعلق کو تو اب یہ مت چھپائیں، کیونکہ اس سے تو پانی بہت آگے گزر گیا ہے، (خدا بیڑا غرق کرے انٹر نیٹ کا!) اور یوسف کذاب کو ’بے گناہ‘ ثابت کرنے کی کوشش تو خیر بالکل ہی مت کریں۔ فکر کریں تو اب اپنی، یوسف کذاب کو بھلا آدمی باور کرانے پر زور لگانا اِس ڈھیر ساری ذہانت کا ایک غیر ضروری مصرف ہوگا۔ وہ تو ڈوبا ہے، اُس کے ساتھ ڈوبنے کا فائدہ؟ دنیا میں، یا آخرت میں؟؟؟

خدا کرے آپ نے توبہ کر لی ہو، البتہ توبہ آپ نے اُسی صورت کی ہو گی، جب کوئی چیز ”گناہ“ نظر آئی ہو گی۔ جہاں تک اس ’چیز‘ کا تعلق ہے تو اُس کو چھپانا اور اُس سے متعلق لوگوں کے چیختے دھاڑتے سوالات کی بابت مسلسل یہ رویہ رکھنا گویا بات ’سن‘ نہیں رہی یا ’سمجھ‘ نہیں آ رہی، اب ایک فضول کوشش ہے۔ ”توبہ“ کیلئے البتہ یہی ضروری ہے کہ کسی چیز کو پہلے ’گناہ‘ بھی مانا جائے۔ البتہ یہ معاملہ ہے آپ کے اور اللہ کے مابین۔ لوگوں سے آپ بے پروا ہو جانا چاہتے ہیں، تو یہ بھی کوئی غلط بات نہیں۔ لیکن اُس صورت میں لوگوں کو مسلسل غلط معلومات فراہم کرنا سمجھ سے بالاتر ہو جاتا ہے، خصوصاً جبکہ لوگ اب پوری تصویر بھی دیکھ رہے ہوں۔ البتہ تائب ہو جانے کے اِس پورے مفروضے کو اُس وقت سب سے زیادہ ٹھیس لگتی ہے بلکہ اچھی خاصی محنت سے بنایا گیا یہ مفروضہ ذہنوں کے اندر چکنا چور ہو جاتا ہے جب لوگ آپ سے یوسف کذاب کی ’بے گناہی‘ کے قصے سنتے ہیں!

آپ کے خیال میں آپ اتنے credible ہیں کہ یوسف کو بھی اپنے ساتھ بچا سکتے ہیں!!! جبکہ دیکھا یہ جا رہا ہے کہ وہ آپ کو لے ڈوبا ہے!!!!!

٭٭٭٭٭

آخری سوال یہ رہ جاتا ہے کہ ایک باطنی پس منظر رکھنے والی شخصیت توبہ کر لے (جبکہ اِس ”توبہ“ کا اب تک ہمیں کوئی علم نہیں) تو اُس کے ساتھ کیا معاملہ رکھا جائے؟ لوگوں کے معاملات کو یقینا ظاہر پر ہی چھوڑ رکھا جائے گا۔ دلوں کا حال اللہ کے علم میں ہے۔ البتہ ایسے کسی پس منظر کی حامل شخصیت کو مسلمانوں کی قیادت کے منصب پر فائز کرنا پھر بھی ایک غیر محتاط طرزِ عمل ہو سکتا ہے۔ الا یہ کہ مسلمانوں کے اہل علم ایسے کسی شخص کا عقیدہ سدھر جانے اور عمل میں اُس کے قابل بھروسہ ہو جانے پر اپنی بھر پور تسلی ظاہر کریں۔

کسی کی توبہ پر یقین کرنا ایک بات ہے اور اُس کو اہل اسلام کی قیادت کی کنجیاں تھما دینے میں احتیاط کرنا ایک اور چیز۔ کسی کی توبہ پایۂ ثبوت کو پہنچ بھی جائے، جو کہ یہاں محل نظر ہے، پھر بھی مؤخر الذکر امر میں محتاط ہونا شرعی احکام کی خلاف ورزی نہیں۔

  
٭٭٭٭٭


(1) ’اپنے‘ کے حوالے سے یوسف کذاب کا موقف تو بہت واضح ہے۔ کیونکہ وہ معاذ اللہ محمد ﷺ کو اپنے اندر جلوہ افروز قرار دیتا ہے۔ اب یہ سوال اِس ’صحابی‘ سے پوچھنا باقی ہے کہ یہ اپنے آپ کو کس کا صحابی سمجھ کر اٹھے اور مجلس میں خطاب فرمایا۔ ہر دو صورت میں پھنستے ہیں۔

Friday, September 9, 2011

JUI, Ahl e Sunnat Wal Jam’at and International Khatm e Nabuwwat Movement to support Hafiz Tahir Mahmood Ashrafi.

JUI, Ahl e Sunnat Wal Jam’at and International Khatm e Nabuwwat Movement to support Hafiz Tahir Mahmood Ashrafi.
Akabareen e Islam ki taraf se Fitna e Zaid Hamid k khilaf hafiz tahir ashrafi k ailan ki taeed.jpg


JUI, Ahl e Sunnat Wal Jam’at and International Khatm e Nabuwwat Movement to support Hafiz Tahir Mahmood Ashrafi in his fight against the Fitna of Zaid Zaman Hamid. This was announced at the International Khatm e Nabuwwat Conference held at Chanab Nagar on 7th September,2011.



Maulana Abdul Hafeez al Makki, Maulana Ahmad Ludhyaanvi, Dr. Ahmad Ali Siraj, Maulana Zahid Mahmood Qasmi, Peer Saifullah Khalid, Qari Zawaar Bahadar were among the 500 Ulema who promised full support to Hafiz Tahir Mahmood Ashrafi.

Tuesday, September 6, 2011

Youm e tafuz e khatm e nabowat

یوم ختم نبوت مبارک ہو
 7 ستمبر 1974 مسلمانو کے لیے انتھائی خوشی کا دن ہے کیونکہ اس دن قادیانیوں کو پاکستان کی قومی اسمبلی نے کافر قرار دیا
 قادیانی قرآن و سنت کی روح سے پھلے ہی کافر تھے 1974 میں سرکاری طور پے بھی کافر قرار دیا گیا۔




Chairman pakistan Ullama council challenges Zaid Hamid to dialogue


Tahir Ashrafi challenges Zaid Hamid to dialogue

LAHORE: Pakistan Ulema Council Chairman Hafiz Muhammad Tahir Mahmood Ashrafi has challenged Zaid Hamid to hold a dialogue over allegations he made in a TV programme.

In a letter to Zaid Hamid on Tuesday, Ashrafi said that he should talk sensibly and prove his allegations. He said that Zaid should tell the nation about himself and his thoughts about Khatm-e-Nubawwat first.

Later, talking to Daily Times, Mahmood Ashrafi said that Zaid was a self-styled paragon of the ultra-right and was using Islam and patriotism as a tool for his ulterior motives. He said that he had no right to label charges against people. He said that he had labelled SAFMA as an extension of the Indian intelligence agency RAW, which was altogether baseless. Recalling the Yusuf Kazab case, Ashrafi said that Zaid had gone to Imtiaz Alam and had asked him to rescue Kazab but Alam had refused to help him. Zaid had also been nominated in Maulana Saeed Jalalpuri murder case, he added. He said that Zaid was now targeting those people who had refused to help him in Kazab case.

He said that nobody knew what Zaid was, whether he was a right-winger, the army’s representative, a holy warrior, an intellectual or a saint. staff report.




Sunday, August 28, 2011

Daily Jinnah: Khushnood Ali Khan’s Exposition of Zaid Hamid Continues. August 29,2011

Khushnood Ali Khan is an eye-witness of Yusuf Kazzab and Zaid Hamid. He has seen Zaid Hamid defending his false prophet during the court proceedings. We appreciate the effort of Khushnood Ali Khan in exposing this Fitna.
یوسف کذاب کے ساتھی زید زمان نے لوگوں کے گھر اجاڑنا شروع کر رکھے ہیں
از خوشنود علی خان...روزنامہ جناح    





Source

www.dailyjinnah.com/islamabad/2011/August/29/column.jpg



Zaid Hamid, yousaf Kazaab, Safma, Khushnood Ali khan, Na qabil e ishahat.
roznama, jinnah,

Wednesday, August 24, 2011

Daily Dawn:Kudos and Condemnation by Kamran Shafi. August 23, 2011



Kamran Shafi blasts Mehr Bukhari and "The Red Capped Extremist"



WHAT else this week but loud applause for Nawaz Sharif for so courageously advocating peace with India at a recently held seminar ‘Building bridges in the subcontinent’ in Lahore?




And utter condemnation for a private TV channel’s vitriolic host and her hate-filled red-capped guest who is known to be a propagandist of the Deep State, for their shrill and nasty attacks upon the South Asian Free Media Association (Safma) that arranged the seminar, generally, and Mr Sharif particularly, merely because he held out the hand of friendship to India?


The anchor did not stop at denigrating the former prime minister; she also attacked President Asif Ali Zardari for saying some years ago, soon after he became president, that India was not the main threat to our country, that the enemy was within. What angered one in the extreme was these two suggesting that any mention of peace with India amounted to treason, was against the two-nation theory, and every other nonsense trotted out by the establishment to seize the narrative on every aspect of Pakistan’s relations with its most important neighbor.




I have heard Mr Sharif’s speech in its entirety and found it to be warmly worded, sincere and laced with an earthy humour that so stirred our Indian friends who were present there. It was a speech that should have been made by a man who as prime minister had the Indian prime minister, Shri Atal Behari Vajpayee, come to Lahore and give a friendly and conciliatory speech at Minar-i-Pakistan, no less, calling for peace and amity between India and Pakistan.




It was a speech that should have been made by a man who was let down by his own chief of army staff, who stabbed his Indian partner-in-peace in the back during the very days India and Pakistan were talking of improving relations, by mounting the mindless and stupid adventure called Kargil.
It was a speech that should have been made by a man who understands that there is no way forward for Pakistan or/and India without peace and friendship between the two. Indeed, Nawaz Sharif was right to say that whilst India had held several inquiries on (its forces being caught unprepared in) Kargil no inquiry was allowed to be held in Pakistan (on why the operation was mounted at all).
So what then so exercised the compere and her guest so much that they went off the deep end? What was so wrong with Nawaz Sharif saying that since India and Pakistan were neighbours one had to look out for the other just as our religion and culture teach us?




What was so wrong when he said that Indians and Pakistanis shared the same culture, even food? And that the border was just a line on the ground? And that instead of competing in arming ourselves with the weapons of war we should compete in the field of industry and business and commerce. What was so wrong in saying that God, who is Rab ul Alimeen was the Rab (God) of all mankind, and not Rab ul Muslimeen, the God of Muslims only?




Whilst most of the diatribe heard on the programme was disgusting, the most gut-wrenching was when the anchor dismissed the part about Indians and us eating the same food by asserting that Hindus worshipped what we ate i.e. beef! The question to ask is: when did she and her guest last visit India and interact with Indian (well alright, Hindu) friends?




The question to ask is: did the compere and her violent guest say what they said because they wanted to say it, or to parrot the Deep State’s line that India (and all those who sail in it) is enemy number one of Pakistan? That there can be no peace ever with India, and that anyone who says anything to the contrary is a traitor and worse?
It was instructive too to see the red-capped extremist, and by implication the TV channel, throw all caution to the winds by alleging that Safma was a RAW-funded organisation. I ask you! Whilst one has often asked the Deep State to rein in its lackeys aka the bright young things, the conspiracy theorists extraordinary who see RAW/Mossad/CIA behind every bush, this really takes the cake.




It is no wonder that 51 (and growing) respected and most senior journalists have condemned the canard and lie, and Safma has threatened legal action against the channel, the compere and her team, and the so-called analyst for defamation. While I add my name to the list of those who condemn this calumny, it is simply not enough to merely sue the so-called analyst, him with the red cap. He is but a puppet; it is his puppeteers who must be unmasked and dragged into the daylight. For there are many more like him, fed on government moneys expropriated by the Deep State for its own purposes and dark doings.




Such as sending out messages of hate and rancour to the world at large, and particularly to India and the US with Israel thrown in for good measure. The Internet is full of their rantings and ravings, going to the extent of holding out threats of using our bum on imagined enemies.
Which straightaway brings me to say what I have said so many times before: our political leaders must stay together, and arm-in-arm fight the monstrous Deep State. Otherwise, first one, then the other.




Source: Daily Dawn


Monday, August 22, 2011

Zaid Hamid's allegation against Deobandi School of thought


Zaid Hamid once again trying to create a fight between Deobandi and Brelvi muslims in order to divert attention of peoples from him.. 

Zaid Hamid has tried this several times but Alhamdolillah he wasn't successful. Even on Yousaf kazab's issue he tried to make it a deobandi-brelvi issue but ullama of both school of thoughts rejected him and declared yousaf as a kazaab.


Image taken from

http://pakdefenceunit.wordpress.com/2011/08/21/zaid-hamid-all-anti-pak-terrorist-groups-are-deobandi/



BEWARE of this FITNA: He can't
 digest the unity of muslim ummah. 
We are all brothers(all muslims, not the kazaab's followers) whether a deobandi, brelvi, ahl e hadith, salafi or any one, we respect all and all are muslims.

So respond properly, and spread this message. Don't fall into the satan and dajjal's hand.

As ALLAH says in the holy Quran

"And hold firmly to the rope of Allah all together and do not become divided. And remember the favor of Allah upon you - when you were enemies and He brought your hearts together and you became, by His favor, brothers. And you were on the edge of a pit of the Fire, and He saved you from it. Thus does Allah make clear to you His verses that you may be guided."
Surah aal-imran ayat number 103


May ALLAH protect us all from these fasadis.

These are they who buy the life of this world for the hereafter, so their chastisement shall not be lightened nor shall they be helped.
AlQuran[2:86]

Sefma ko raa funded klehnay par zaid hamid ki Durgat

Safma to raa funded kehnay walay kya wohi nhe jo yousaf kazaab k khalifa e awal thay
لال ٹوپی پہننے والے صاحب آپ اپنی اصلیت نہی چھپا سکتے ہو.
کیا تم وہی ہو جو یوسف کذاب کے خلیفہ اول تھے؟
کیا تم سمجتے ہو کہ لوگ تمہاری لال ٹوپی کو دیکھ کر فتنہ کذاب کو بھول جایں گے؟؟


by khushnood ali khan

Source

http://www.dailyjinnah.com/islamabad/2011/August/18/column.jpg



Zaid Hamid ta tiya pancha


سوال یہ ہے کہ زائد حامد کو کس نے اس وقت لانچ کیا ہے؟؟؟؟
میںنے اپنے طور پر اس ادارے سے جس کے بارے میں یہ تاثر دیتا ہے کہ انہوں نہ اسے لانچ کیا ہے. پوچھنے کی کوشش کی تو معلوم ہوا......وو اسے لانچ نہی کرتے ..... یہ اپنے طور پر ہی ان کا نام استعمال کر رہا ہے




Zaid Hamid Ki haqiqat

an article written by khushnood Ali khan in Daily Jinnah on august 19 2011.

Source

http://www.dailyjinnah.com/islamabad/2011/August/19/column.jpg


Saturday, August 20, 2011

Yusuf Kazab With His Spiritual Wife Aneela [Photo]


This photo was provided to print media by a person name Ahmed Deen. Ahmed Deen was a senior officer in the government on Economic Affairs and was the father of Sohail – who was a computer engineer and one of the Khalifa’s of Yusuf Kazab.

Sohail and Zaid Hamid used to be present at all court hearings during the Yusuf Kazab case. Sohail is currently running the spiritual side of Kazabi cult and Zaid Hamid is running the political and propaganda side of the Kazabi cult. Both of them were die-hard followers of Kazab and were made Khalifa by Kazab, due to their unwavering support. The duties and responsibilities of Zaid Hamid and Sohail are as follows:
Zaid Hamid’s job was to get wealthy families and personalities into Yusuf’s cult so that Yusuf could rob them of their money and property.
Sohail’s job was to get beautiful and young girls into Yusuf’s cult and ultimately encourage them to become Yusuf’s wives.

The image could be obtained from the record of Takbeer or Khabrain.


Aneela was an unmarried woman from Lahore. Yusuf declared her to be his spiritual wife and she started living with Yusuf in Lahore and also accompanied him during his visit to Karachi. When Aneela’s father found out about all this, he got furious and tried to make her realise what she was doing.


When Aneela found out about the reality, she went into mental trauma and was admitted in a psycological ward of an hospital in Karachi.


On the same line Zaid hamid has also spiritual wives


Source
http://insaf.com.pk/issues/2011/June/23/epaper/popup.htm?p1%2Fa036.gif







source
http://insaf.com.pk/issues/2011/June/23/epaper/popup.htm?p1%2Fa037.gif



Source

http://insaf.com.pk/issues/2011/June/23/epaper/popup.htm?p1%2Fa033.gif



Read in online newspaper

http://insaf.com.pk/issues/2011/June/23/epaper/p1.htm



Brigadier Aslam Malik: Yusuf Kazab Aik Jhota Aur Makar Mudaiye Nabuwat













eye witness of yousaf kazaab blasphemy.
zaid hamid ki haqiqat.
zaid hamid ka nabi yousaf kazaab